Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ امن قرارداد اور مجوزہ اقوام متحدہ کے فورس کے لیے علاقائی حمایت حاصل ہے: امریکہ

اقوام متحدہ میں امریکی مشن نے بدھ کے روز کہا کہ اہم علاقائی شراکت دار، جن میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، نے غزہ کے لیے اس کی مجوزہ قرارداد کی حمایت کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ پیشرفت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اندر ایک سفارتی کوشش کی علامت ہے، جس کا مقصد جنگ زدہ علاقے کے لیے دو سالہ عبوری مینڈیٹ اور ایک بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کو آگے بڑھانا ہے۔
امریکی مشن کے ترجمان کے مطابق اقوام متحدہ میں امریکی سفیر مائیک والٹز کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل رکن ممالک، الجزائر، ڈنمارک، یونان، گیانا، پاکستان، پاناما، جنوبی کوریا، سیرالیون، سلووینیا اور صومالیہ، کے علاوہ علاقائی ممالک جن میں سعودی عرب، مصر، قطر، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، نے امریکی قیادت میں تیار کردہ اس اقدام کی حمایت کا اظہار کیا۔
قرارداد کے مسودے میں ایک عبوری انتظامی ادارہ تشکیل دینے کی توثیق کی گئی ہے، جسے ’بورڈ آف پیس کہا جائے گا۔ اس کے تحت غزہ کا انتظام حماس کے ہاتھوں سے نکل جائے گا اور تنظیم پر غیر مسلح ہونے کی شرط عائد کی جائے گی۔
قرارداد کے مسودے میں مزید ایک ’بین الاقوامی استحکام فورس‘ کی تعیناتی کی اجازت دی گئی ہے، جو اقوام متحدہ کے دو سالہ مینڈیٹ کے تحت کام کرے گی۔ اس فورس کو شہریوں کے تحفظ، انسانی امداد کی ترسیل کی نگرانی، اسرائیل اور مصر کی سرحدوں پر محفوظ زون قائم کرنے، غیر ریاستی مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے، اور ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کی تربیت کا اختیار حاصل ہوگا۔
قرارداد کا مسودہ بدھ کی رات سلامتی کونسل کے تمام 15 اراکین کے باضابطہ غور کے لیے تقسیم کر دیا گیا۔
ترجمان کے مطابق، مسودے پر علاقائی اتفاقِ رائے ’تاریخی موقع‘ ہے، جس کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں دہائیوں سے جاری خونریزی ختم کی جا سکتی ہے اور غزہ کو ایک محفوظ اور خوشحال خطے میں بدلا جا سکتا ہے۔
اس سے امریکہ کے اس عزم کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ وہ صرف ’لامتناہی گفتگو‘ کے بجائے عملی نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اہم علاقائی ممالک کی حمایت اس لیے بھی اہم ہے کہ ان کی شرکت کسی بھی کثیرالملکی استحکام فورس کی اجازت اور بین الاقوامی قانونی حیثیت کے لیے ناگزیر سمجھی جا رہی ہے۔
امریکی ترجمان نے واضح کیا کہ کوئی امریکی فوجی غزہ میں تعینات نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بجائے، واشنگٹن نے انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکیہ اور آذربائیجان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت کی ہے تاکہ وہ اس بین الاقوامی فورس میں اپنے دستے بھیجیں۔
رپورٹس کے مطابق، مسودے میں یہ شق شامل ہے کہ یہ فورس ’امن بورڈ‘، مصر اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کے بعد ایک متحدہ کمان کے تحت کام کرے گی۔
اس میں ایک تفصیلی لائحہ عمل بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق یہ فورس غزہ میں سکیورٹی کی صورتحال کو مستحکم کرے گی، غیر ریاستی مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرے گی، ہتھیاروں کو تلف کرے گی، اور نئی فلسطینی پولیس فورس کی تربیت و نگرانی کرے گی۔

شیئر: