دوسرا ون ڈے: جنوبی افریقہ نے پاکستان کو آؤٹ کلاس کر دیا، عامر خاکوانی کا تجزیہ
جمعرات 6 نومبر 2025 22:17

عامر خاکوانی -صحافی، لاہور
فیصل آباد میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں جنوبی افریقہ نے میچ صرف جیتا نہیں بلکہ پاکستان کو مکمل طور پر آؤٹ کلاس کر دیا۔ پاکستانی ٹیم کا تو علم نہیں، پاکستانی شائقین البتہ شرمندگی کے ساتھ یہ یک طرفہ میچ ہار کی طرف جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
پاکستانی بیٹنگ کا ٹاپ آرڈر آج پھر فیل ہوگیا، پھر بولنگ بُری طرح ناکام ہوئی، تاہم اس شکست کے اندر کئی ایسی پرتیں ہیں جو محض ’بولنگ ناکامی‘ سے کہیں آگے کی کہانی سناتی ہیں۔یہ میچ دراصل پاکستانی کرکٹ کے طرزِ فکر اور جنوبی افریقہ کی ذہنی پختگی کا فرق بے نقاب کر گیا۔
منصوبہ بندی سے عاری بولنگ
پاکستانی ٹیم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب بھی ’ردِعمل کی کرکٹ‘ کھیل رہی ہے ۔ یعنی جو سامنے ہو، بس اسی پر ردِعمل دینا۔ انیشیٹو لینے کی صلاحیت کمزور رہی۔
جنوبی افریقہ نے ’پیشگی منصوبے‘ کے ساتھ میدان میں قدم رکھا۔ پہلے 10 اوورز میں تیز کھیلے مگر اندھا دھند وکٹیں تھرو نہیں کیں۔
جنوبی افریقہ نے اگلے 20 اوورز میں سپنرز اور پھر فاسٹ بولرز کو بے رحمی سے نشانہ بنایا، مطلوبہ رن ریٹ بہت کم کر دیا۔ پھر اگلے اوورز میں سکون اور اعتماد سے سنگلز پر فوکس کیا۔
پاکستانی بولنگ بے بس تھی۔ کپتان کے پاس حواس باختہ اور آگ بگولا چہرے کے سوا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ جب ڈی کوک اور ڈی زورزی کی شراکت خطرناک شکل اختیار کر گئی تو شاہین کے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا۔
وہ گیند بازوں کو روٹیشن میں چلاتے رہے مگر کسی سپیل کو ’حملہ آور‘ انداز میں استعمال نہیں کیا۔پاکستان کی کپتانی ردِعمل پر مبنی رہی، کنٹرول پر نہیں۔
پاکستانی بولرز شاہین، نسیم، نواز، فہیم سب ایک جیسے لگے۔ ہر کوئی ’اپنا اوور پورا‘ کرنے نکلا، ’کسی کو آؤٹ‘ کرنے نہیں۔ کسی نے لائن تبدیل نہیں کی، کوئی شارٹ بال پلان نہیں، کوئی فیلڈ ویری ایشن نہیں۔
یوں اس میچ نے دو کہانیاں سنائیں۔ ایک اُن بولرز کی جو خود سے اُلجھے ہوئے تھے اور دوسری کہانی اُن فاتح بیٹرز کی جنہوں نے مخالف کی کمزوری کو اپنی طاقت بنا لیا۔ پاکستان کے بولرز نے یاد دلا دیا کہ شہرت اگر فارم سے خالی ہو تو بوجھ بن جاتی ہے۔
یہ وہی بولنگ یونٹ ہے جس پر کبھی پاکستان کو فخر تھا، مگر آج وہ دباؤ میں بکھرا ہوا نظر آیا۔ پاور پلے میں کوئی خطرہ پیدا نہ ہو سکا، مڈل اوورز میں بھی بولر بے سمت رہے۔
ڈی کاک نے پاکستانی ٹاپ آرڈر کو مثال پیش کی
جنوبی افریقہ کے تجربہ کار اوپننگ بلے باز کوئنٹن ڈی کوک کی شاندار سینچری اننگز ٹیکنیکل بیٹنگ کی نصابی مثال تھی۔ اس نے نئی گیند کے وقت دفاعی سٹانس رکھا۔
اس نے پہلے 10 اوورز میں صرف 15 رنز بنائے، بعد میں سپنرز کے آنے پر پیس بڑھائی، رنز کے دباؤ کو کبھی بڑھنے نہیں دیا۔ڈی کوک کے 7 چھکے اور 8 چوکے صرف پاور نہیں، پلان تھا۔ڈی کوک نے شاہین، نسیم اور نواز تینوں کے خلاف مختلف شاٹ سلیکشن اپنائی۔
ڈی زورزی اور پریٹوریئس، نوجوان مگر سمجھدار جوڑی
اوپنر پریٹوریس نے جارحانہ بیٹنگ کر کے ڈی کوک کو دباؤ میں نہیں آنے دیا۔ اس کے بعد ڈی زورزی نے شاندار پارٹنرشپ بنا کر پاکستان کو میچ میں واپس آنے ہی نہیں دیا۔
یہ دونوں بیٹرز جنوبی افریقہ کے نئے دور کی علامت ہیں۔ پاور ہٹر نہیں، پریشر کنٹرولر۔ پریٹوریئس نے شاہین کی لینتھ فوری سمجھ لی اور ڈی زورزی نے فہیم، وسیم، نواز تینوں کو تسلسل سے باؤنڈریز لگا کر پاکستانی پلان کو تباہ کیا۔ 95 رنز کی یہ پارٹنرشپ میچ کا اہم ترین نکتہ تھی۔
جنوبی افریقہ نے ذہنی فٹنس دکھائی
جنوبی افریقہ کی پہلی وکٹ 82 رنز پر گری مگر رن ریٹ گرا نہیں۔ کوئی جلد بازی نہیں کی، کوئی ’پاور پلے ہائپ‘ نہیں بننے دی۔ یہ وہی فرق ہے جو دو ٹیموں کے پلان اور عمل درآمد کے درمیان نظر آتا ہے۔
پاکستان کی بیٹنگ میں اُلٹ رہا۔ تین کھلاڑی ابتدا میں آؤٹ ہوگئے تو اچھی پارٹنرشپ بنائی گئی مگر رن ریٹ ساڑھے چار سے نہیں بڑھ سکا۔ ویسے وہ پارٹنرشپ نہ بنتی تو شاید پاکستانی ٹیم 200 بھی نہ بنا پاتی۔
ناقص ٹیم سلیکشن، کمزور پلاننگ
ہماری منصوبہ بندی بھی سمجھ سے بالاتر رہی۔ پچھلے میچ میں پاکستان کے سٹار مسٹری سپنر ابرار نے اہم کردار ادا کیا، انہوں نے تین اہم وکٹیں حاصل کیں اور ڈیتھ اوورز بھی کرائے۔
جمعرات کو کھیلے گئے اہم ترین میچ میں ابرار کو نجانے کیوں باہر بٹھا دیا گیا۔ ان کی جگہ وسیم جونیئر کو کھلایا گیا، نجانے کیوں؟ پچ میں ایسا کیا تھا جو فاسٹ بولرز کو زیادہ مدد دے گا؟
کوئی نہیں جانتا، سوائے پاکستانی کوچ اور کپتان کے۔ اچھے بھلے وننگ کمبی نیشن کو خراب کیا۔ اگر ابرار کو باہر بٹھانا ہی تھا تو اس کی جگہ نوجوان مسٹری سپنر فیصل اکرم کو کھلاتے۔ کوئی سپیشلسٹ سپنر تو ٹیم میں موجود ہوتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ نے چار سپنرز کھلائے، دو فاسٹ بوولرز، پاکستان نے چار فاسٹ بولرز کھلائے اور دو پارٹ ٹائم سپنرز۔ معلوم ہوا کہ مہمان ٹیم نے پاکستانی پچ کو بہتر انداز میں پڑھا۔
اس میچ میں پاکستان کے پارٹ ٹائم سپنرز صائم ایوب، محمد نواز اور سلمان آغا بُری طرح ناکام ہوئے، رنز بھی دیے اور جنوبی افریقی بلے بازوں کو معمولی سا پریشان بھی نہیں کر سکے۔
ہم جیسے عام صحافی بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ صائم ایوب پارٹ ٹائمر ہے، اس پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج صائم نے ابتدا ہی میں مایوس کیا، اس سے صرف تین اوورز کرائے گئے جن میں 21 رنز بنے۔
پاکستان نے اس ون ڈے میں مڈل آرڈر بلے باز حسن نواز کی جگہ آل راؤنڈر فہیم اشرف کو کھلایا۔ یہ پاکستان کے ہیڈ کوچ مائیک ہیسن کا فلسفہ ہے کہ ٹیم میں آل راؤنڈر زیادہ کھلائے جائیں، مگر کیوں؟
آخر دنیا کی بہترین ٹیمیں بھی تو ہیں، وہ تو اتنے آل راؤنڈر نہیں کھلاتیں۔ پاکستان نے اپنی طرف سے پانچ آل راؤنڈر کھلائے، کیا نتیجہ نکلا؟
فہیم اشرف کو اس میچ میں بطور آل راؤنڈر کھلایا گیا، فہیم کی اوسط درجے سے کم بولنگ نے ثابت کیا کہ وہ ٹی20 میں تو شاید گزارہ کر جائیں جہاں دو تین اوورز کرانا پڑیں۔
ون ڈے میں فہیم اشرف نے مایوس کیا۔ 6 اوورز میں 40 رنز دیے جن میں تین بلند وبالا چھکے شامل تھے۔ وسیم جونیئر کو وکٹ تو ملی، مگر اکانومی ریٹ چھ سے زائد رہا۔
پاکستان کی بیٹنگ نے ابتدا میں مایوس کیا، ٹاپ آرڈر پہلے پانچ اوورز میں ایکسپوز ہوگیا۔ فخر زمان پہلے اوور میں صفر پر چل دیے۔
بابراعظم جنہیں ان کے مداح اب پھر سے کنگ کہنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، وہ پچھلے ون ڈے کی طرح اس بار بھی ناکام ہوئے۔ بابر جس گیند پر آؤٹ ہوئے،
اپنے اچھے وقت میں وہ ایسی گیندوں کو ذرا برابر بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بابر اعظم کو کوربن بوش کی گیندوں پر مسلسل بیٹ ہوتے دیکھنا تھا۔
یوں لگ رہا تھا کہ کسی بھی گیند پر بابر آؤٹ ہو جائیں گے۔ایک گیند پر امپائر نے انہیں ایل بی ڈبلیو دے دیا، بابر شاید چل پڑتے، مگر صائم ایوب نے انہیں ریویو کا کہا۔ تب تو بابر بچ نکلے مگر چند گیندوں بعد پھر چل دیے۔
محإد رضوان نے عجیب وغریب انداز میں اپنی وکٹ بھی اسی اوور میں گنوا دی۔ اس کے بعد سلمان آغا اور صائم ایوب کی 92 رنز کی اچھی پارٹنرشپ بنی۔ دونوں نے نصف سینچریاں بنائیں۔
تاہم آخری 10 اوورز میں اگر کسی حد تک فہیم اور پھر نواز اچھی بیٹنگ نہ کر جاتے تو 250 رنز بھی نہیں بننا تھے۔ جنوبی افریقی کپتان نے ایک ہی غلطی کی، آخری اوور لیگ سپنر پیٹر کو دے دیا۔ اس اوور میں 22 رنز بن گئے۔ یہ غلط فیصلہ تھا۔
مجموعی طور پر میچ کے آغاز سے انجام تک فرق صاف تھا۔ ایک ٹیم منصوبے کے ساتھ کھیلی، دوسری امید کے سہارے۔ آغاز سے اختتام تک دونوں ٹیموں کے درمیان فرق نمایاں تھا۔ وہاں نظم، منصوبہ بندی اور ذہنی پختگی تھی، یہاں اُمید، اضطراب اور آزمائش۔
