چمن سرحد پر جھڑپوں کے بعد دونوں جانب سے الزامات، ’فائرنگ افغان شادی کی تقریب سے شروع ہوئی‘
چمن سرحد پر جھڑپوں کے بعد دونوں جانب سے الزامات، ’فائرنگ افغان شادی کی تقریب سے شروع ہوئی‘
جمعرات 6 نومبر 2025 21:28
زین الدین احمد، اردو نیوز، کوئٹہ
اکتوبر کی جھڑپوں میں افغانستان کی حدود میں کم از کم پانچ پاکستانی شہری بھی مارے گئے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن سے متصل پاک افغان بارڈر پر جمعرات کی شام ایک بار پھر پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
یہ جھڑپیں ایسے وقت میں ہوئیں دونوں ممالک کے وفود ترکیہ کے شہر استنبول میں فائربندی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات میں مصروف تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کا آغاز تقریباً پانچ بجے مرکزی سرحدی گزرگاہ ’بابِ دوستی‘ کے قریب اقبال پوسٹ اور تصدق پوسٹ کے درمیانی علاقے میں ہوا۔ دونوں جانب سے چھوٹے ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ اس دوران دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں جن کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ وہ مارٹر گولوں کے فائر تھے۔
فائرنگ اور دھماکوں کی آوازوں سے سرحدی پٹی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ فائرنگ کا یہ سلسلہ تقریباً نصف گھنٹے سے زائد وقت تک وقفے وقفے سے جاری رہا۔
پاکستانی حدود میں بابِ دوستی کے قریب موجود افغان مہاجرین کے ہولڈنگ کیمپ میں لوگ گاڑیوں کے نیچے چھپ گئے۔ انتظامیہ نے مہاجرین کو سرحد کے قریب سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کرنا شروع کر دیا جبکہ افغان علاقے ویش منڈی میں شہری گھروں اور دکانوں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو گئے۔
چمن کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تاہم ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر رشید ناصر کے مطابق کوئی زخمی ہسپتال نہیں لایا گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان سرحدی صوبے قندھار کے محکمہ اطلاعات کے سربراہ علی محمد حقمل نے بتایا کہ فائرنگ کا دورانیہ مختصر تھا جبکہ افغان علاقوں کے رہائشیوں نے بتایا کہ یہ سلسلہ 10 سے 15 منٹ تک جاری رہا۔
پاکستان اور افغانستان دونوں نے ایک دوسرے پر فائربندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔تاہم پاکستان کی وزارتِ اطلاعات نے افغان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’فائرنگ افغان جانب سے شروع کی گئی جس کا ہماری سکیورٹی فورسز نے فوری، محتاط اور ذمہ دارانہ انداز میں جواب دیا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستانی فورسز کی ذمہ دارانہ کارروائی کے باعث صورتحال پر قابو پا لیا گیا اور جنگ بندی بدستور برقرار ہے۔ پاکستان مذاکراتی عمل کے لیے پرعزم ہے اور افغان حکام سے بھی اسی طرزِ عمل کی توقع رکھتا ہے۔‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن اور طورخم دو بڑی سرحدی گزرگاہوں سے تجارت ہوتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر کہا کہ ’جبکہ استنبول میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج سہ پہر ایک بار پھر سپین بولدک پر پاکستانی فورسز نے فائرنگ کی جس سے عوام میں تشویش پیدا ہوئی۔‘
ان کے مطابق ’اسلامی امارت کی فورسز نے مذاکراتی ٹیم کے احترام اور شہری ہلاکتوں سے بچنے کے لیے تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا۔‘
چمن میں سکیورٹی ذرائع کے مطابق فائرنگ ایک افغان شادی کی تقریب کے دوران ہوائی فائرنگ کے بعد شروع ہوئی جسے پاکستانی فورسز نے سرحد پار سے حملہ سمجھا۔ ردِعمل میں پاکستانی فورسز نے جوابی فائرنگ کی تاہم مقامی سطح پر رابطوں کے بعد صورتحال جلد قابو میں آ گئی۔
خیال رہے کہ یہ جھڑپیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب پاکستان اور افغانستان کے وفود کے درمیان جمعرات کو ترکیہ کے شہر استنبول میں فائربندی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
گزشتہ ہفتے استنبول مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے تھے جب جنگ بندی کی تفصیلات پر دونوں فریقوں میں اتفاق نہ ہو سکا۔ فریقین نے ایک دوسرے پر عدم تعاون کا الزام لگاتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو جھڑپیں دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اکتوبر میں ایک ہفتے کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں افغان سرحدی علاقے میں 50 شہری ہلاک اور 447 زخمی ہوئے جبکہ کابل میں ہونے والے دھماکوں میں کم از کم پانچ افراد مارے گئے۔
پاکستانی فوج کے مطابق ان جھڑپوں میں 23 اہلکار ہلاک اور 29 زخمی ہوئے تاہم شہری نقصان کا ذکر نہیں کیا گیا۔
چمن کے مقامی حکام کے مطابق اکتوبر کی جھڑپوں میں افغانستان کی حدود میں کم از کم پانچ پاکستانی شہری بھی مارے گئے جن کی لاشیں ہلالِ احمر کے ذریعے چمن لائی گئیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ سکیورٹی کے مسائل ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
چمن اور سپین بولدک میں سرحد آبادیوں کے درمیان سے گزرتی ہے جس کے باعث جھڑپوں کے دوران مقامی بستیاں براہِ راست زد میں آتی ہیں، یہ علاقہ 2600 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد کے دیگر حصوں سے منفرد اور زیادہ حساس سمجھا جاتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں اور کشیدگی کی وجہ سے 12 اکتوبر کے بعد سے پاک افغان سرحد بند ہے جس کے باعث آمدورفت، باہمی تجارت اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معطل ہے۔ پاکستان کی جانب سے صرف افغان مہاجرین کو وطن واپسی کی اجازت دی جا رہی ہے۔
بدھ کو انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کی بار بار بندش نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں بسنے والی آبادیوں کے معاشی اور سماجی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسلسل اور بامعنی مذاکرات پر زور دیا گیا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ سکیورٹی کے مسائل ہیں۔ اسلام آباد کابل پر الزام لگاتا ہے کہ وہ عسکریت پسند گروہوں خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دے رہا ہے جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں تاہم طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔