امریکی نائب صدر کا اپنی ہندو اہلیہ کے مذہب پر بیان، بین المذاہب جوڑوں کے چیلنجز پر نئی بحث
امریکی نائب صدر کا اپنی ہندو اہلیہ کے مذہب پر بیان، بین المذاہب جوڑوں کے چیلنجز پر نئی بحث
اتوار 9 نومبر 2025 7:20
جے ڈی وینس نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ مسیحی مذہب اختیار کر لیں گی۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب میں اس امید کا اظہار کیا کہ ایک دن ان کی اہلیہ مسیحی مذہب اختیار کر لیں گی۔ نائب صدر کے اس بیان نے ان حساس چیلنجز پر ایک مرتبہ پھر بحث چھیڑ دی ہے جو کسی بھی شادی میں مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو درپیش ہوتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق ماہرین جو ایسے سینکڑوں جوڑوں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں کے خیال میں ایک صحت مند طرز زندگی کے لیے ایک دوسرے کی مذہبی روایات کا احترام اور اپنے بچوں کی پرورش کے بارے میں کھل کر بات چیت کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنا یا یہ امید کرنا کہ میرا شریک حیات مذہب تبدیل کر لے گا، تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
نائب صدر جے ڈی وینس نے اپنی اہلیہ اوشا چلوکوری وینس کے مذہب سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار مسیسپی یونیورسٹی میں تقریب کے دوران ایک سوال کے جواب میں کیا تھا۔
تقریب میں موجود ایک خاتون نے جے ڈی وینس سے سوال کیا کہ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش یہ احساس دلائے بغیر کیسے ممکن بنائی کہ ان کا مذہب اہلیہ کے مذہب سے بالاتر نہیں ہے۔
اس سوال کے جواب میں جے ڈی وینس نے کہا، ’کیا میں یہ امید کرتا ہوں کہ آخرکار وہ بھی کبھی نہ کبھی متاثر ہوں گی جس سے طرح سے میں چرچ سے متاثر ہوا تھا؟ جی، میں یہ چاہتا ہوں، کیونکہ میں انجیل پر یقین رکھتا ہوں، اور میں امید کرتا ہوں کہ کبھی میری اہلیہ بھی اسی انداز سے دیکھے جیسے میں دیکھتا ہوں۔‘
’لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتیں، تو خدا کے احکامات کے مطابق ہر انسان کو اپنے فیصلوں کا حق حاصل ہے تو اس لیے یہ (ان کا مختلف مذہب سے ہونا) میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں پیدا کرتا۔‘
تاہم سوشل میڈیا پر بھی نائب صدر کے اس تبصرے پر تنقید کی گئی ہے۔ ہندو امریکن فاؤنڈیشن نے نائب صدر کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں تاریخ کا بھی حوالہ دیا ہے جب مسیحیوں نے ہندوؤں کو مذہب تبدیلی پر اکسایا تھا۔
جے ڈی وینس کے اہلیہ کے مذہب کے حوالے سے بیان پر ہندو امریکن فاؤنڈیشن نے تنقیدی بیان جاری کیا۔ فوٹو: اے ایف پی
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’آپ کا اپنی اہلیہ کے مذہبی ورثے کے حوالے سے بیان ان خیالات کی عکاسی کرتا ہے کہ نجات کا صرف ایک ہی صحیح راستہ ہے، یہ تصور جو ہندو مذہب کا حصہ نہیں، اور وہ راستہ مسیح کے ذریعے ہی ہے۔‘
جے ڈی وینس کے پریس آفس نے ہندو امریکن فاؤنڈیشن کے اس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
تاہم جے ڈی وینس نے سوشل میڈیا پر ایک صارف کی تنقیدی پوسٹ کے جواب میں کہا کہ ’ان کی اہلیہ زندگی کی سب سے حیرت انگیز نعمت ہیں اور اہلیہ نے ہی انہیں مذہب کی طرف واپس آنے کی ترغیب دی۔‘
سوشل میڈیا پلیٹ فار ایکس پر ایک پوسٹ میں جے ڈی وینس نے اپنی اہلیہ کے حوالے سے کہا ’وہ مسیحی نہیں ہیں اور نہ ہی مذہب تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ ہے، لیکن بین المذاہب شادیوں یا کسی بھی بین المذاہب رشتے سے منسلک لوگوں کی طرح مجھے بھی امید ہے کہ وہ بھی اسی انداز سے چیزوں کو دیکھیں جیسے میں دیکھتا ہوں۔‘
’قطع نظر، میں ان سے محبت کرتا رہوں گا اور ان کا ساتھ دیتا رہوں گا، ور ان کے ساتھ مذہب، زندگی اور ہر چیز کے بارے میں بات کروں گا، کیونکہ وہ میری بیوی ہیں۔‘
مسیسپی یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب میں جے ڈی وینس نے مزید کہا تھا کہ انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے اپنے بچوں کی پرورش مسیحی مذہب کے مطابق کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے بچے کرسچن سکول میں پڑھتے ہیں اور کیتھولک سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
انڈین نژاد اوشا چلوکوری ک تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ فوٹو: گیٹی امیجز
نائب صدر نے بتایا کہ ییل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کی ملاقات اوشا چلوکوری سے ہوئی جب وہ دونوں کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے تھے۔ تاہم جے ڈی وینس نے 2019 میں کیتھولک مذہب اختیار کیا۔
امریکہ کی کیتھولک یونیورسٹی میں تھیولوجی کے پروفیسر جان گرابوسکی کا کہنا ہے کہ کیتھولک چرچ پابند کرتا ہے کہ بین المذاہب شادی میں بچوں کی پرورش کیتھولک تعلیمات کے مطابق ہو، اور یہ ایک وعدہ ہے جو کیتھولکس کو عقیدے سے باہر شادی کرنے کی اجازت حاصل کرنے سے پہلے کرنا چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ کیتھولک چرچ اس بات پر مُصر ہے کہ میاں یا بیوی کو ایک دوسرے پر مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے زبردستی یا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔