Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان حکومت کے عناصر پاکستان میں پشتون قوم پرستی کو ہوا دے رہے ہیں: دفترِ خارجہ

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ طالبان حکومت کے عناصر کی جانب سے پاکستان میں پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے اتوار کو جاری کیے گئے بیان میں ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان میں پشتون ازم کو بھڑکانے کی بجائے طالبان کی حکومت کے لیے یہ دانشمندی ہوگی کہ وہ اپنی حکومت کے ڈھانچے میں اپنی آبادی کے تمام طبقات کی شمولیت پر توجہ دے۔‘
ترجمان کے مطابق ’یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان میں پشتون، معاشرے اور ریاست کا ایک متحرک حصہ ہیں جو سیاست اور بیوروکریسی کے تمام شعبوں میں قائدانہ عہدوں پر فائز ہیں۔ افغانستان سے زیادہ تعداد میں پشتون پاکستان میں بستے ہیں۔‘
اس سے قبل سنیچر کو طالبان حکومت کے ترجمان نے اپنے بیان میں مذاکرات کی ناکامی کا الزام اسلام آباد کے ’غیر ذمہ دارانہ اور غیر تعمیری‘ رویے پر عائد کیا تھا تاہم انہوں نے بعد میں ایک نیوز کانفرنس میں زور دے کر کہا تھا کہ جنگ بندی ’برقرار رہے گی۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’جب افغان طالبان دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہیں تو وہ یہ بتانے میں ناکام رہتے ہیں کہ افغانستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کو جائز قرار دینے کے فتوے جاری کیے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے اندر سرگرم دہشت گرد گروہوں میں اب افغان شہریوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔‘
ترجمان نے کہا کہ پاکستان دوطرفہ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ’تاہم پاکستان کی بنیادی تشویش یعنی افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی پر سب سے پہلے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘
ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’طالبان رجیم میں کچھ افراد پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ افغان پالیسی کے معاملے میں پاکستان کے داخلی اختلافات کا شکار ہے۔ اس گمراہ کن پروپیگنڈے کے برعکس پاکستان کے عوام واضح طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں چھپے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی دہشت گردی پر مبنی کارروائیوں سے سب سے زیادہ عام شہری نشانہ بنے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی مسلح افواج، عوام اور ان کے جان ومال کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہیں ہیں۔ اس لیے یوری پاکستانی قوم ملک اور عوام کے مفاد کا تحفظ کرنے والی مسکح افوج کے ساتھ کھڑی ہے۔‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ ماہ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

دفترِ خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان نے کبھی بھی کابل میں کسی حکومت کے ساتھ بات چیت سے گریز نہیں کیا۔ تاہم پاکستان کسی دہشت گرد گروپ کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا، چاہے وہ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے ہو۔
افغان طالبان میں ایسے افراد بھی ہیں جو پاکستان کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے۔ لیکن غیرملکی عناصر کی مالی مدد کے ساتھ ایک مضبوط لابی ہے جسے تناؤ بڑھانے کا کام سونپا گیا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’قانونی جواز تلاش کرنے اور اپنی منقسم حکومت کو متحد کرنے کے لیے طالبان حکومت میں بعض افراد پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر اور ان کے حامیوں نے پاکستان کی مشکلات کو بڑھانے کو کافی مفید سمجھا ہے۔ یہ عناصر پاکستان کے خلاف بدزبانی اور اشتعال انگیز الزامات میں مصروف ہیں۔ ایسا کر کے وہ پاکستان کے اندر جو بھی خیرسگالی رکھتے تھے، اسے تیزی سے ختم کر رہے ہیں۔‘
ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان ہمیشہ سے ہی امن اور سفارت کاری کا ایک مضبوط حامی رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس بات کی وکالت کی ہے کہ طاقت کا استعمال سب سے آخری حربہ ہونا چاہیے۔ امن اور سفارت کاری کو ہر ممکن موقع دینے کے اسی جذبے کے تحت اور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کے مخلصانہ مشورے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے مخلص دوستوں کی ثالثی میں ہونے والے پاک-افغان امن مذاکرات میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی۔‘

پاکستان نے مذاکرات میں ثالثی کے لیے ترکیہ اور قطر کا شکریہ ادا کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ دوحہ میں ان مذاکرات کے پہلے دور میں تعاون اور ذمہ داری کے بعض اصولوں پر افغانستان کے ساتھ ایک مفاہمت طے پائی تھی۔ اسی کے مطابق پاکستان نے عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’استنبول میں ہونے والے دوسرے دور کا مقصد دوحہ میں پہلے دور میں فریقین کی جانب سے طے شدہ اقدامات کے نفاذ کا ایک طریقہ کار وضع کرنا تھا۔ تاہم طالبان انتظامیہ کے نمائندوں نے عملی طور پر کوئی بھی اقدام اٹھانے سے گریز کیا اور مذاکرات کے پہلے دور میں کیے گئے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی۔‘
دفتر خارجہ نے کہا کہ ’انہوں نے اشتعال انگیز اور الزام تراشی پر مبنی میڈیا بیانات اور الزامات کے ذریعے ماحول کو خراب کرنے کی بھی کوشش کی جبکہ پاکستان اپنے اس بنیادی مطالبے پر قائم رہا کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد عناصر کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق کارروائی کی جائے۔‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی گزرگاہیں تجارت کے لیے بند ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ترجمان نے بتایا کہ ’مذاکرات کے تیسرے دور میں پاکستان نے ایک مؤثر نگرانی کا نظام قائم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے دوبارہ تعمیری انداز میں شرکت کی۔ تاہم افغان فریق نے دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر سے توجہ ہٹانے اور فرضی الزامات اور بے بنیاد دعوؤں کو شامل کرکے مذاکرات کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات سے متعلق معلومات رکھنے والا کوئی بھی شخص آسانی سے یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ طالبان انتظامیہ صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینے میں دلچسپی رکھتی تھی لیکن افغان سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے عناصر کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق کارروائیاں کرنے کو تیار نہیں تھی۔‘

 

شیئر: