چکّی: محنت، ورثے اور خواتین کی تاریخی جدوجہد کی علامت
اجناس اور دانے پیسنے کے لیے قدیم زمانے میں مملکت میں گھروں کے اندر استعمال ہونے والے آلات میں شاید ’چکّی‘ قدیم ترین ہے۔
پرانے زمانے کی یہ روایت آج بھی خاندانوں میں نہ صرف موجود ہے بلکہ لوگوں کو ماضی کی یادوں میں محو کر دیتی ہے۔
اس چکّی کو اگلے وقتوں میں نہ صرف کھانے کی اشیا تیار کرنے کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا بلکہ اس سے کئی کہانیاں بھی وابستہ تھیں اور یہ چکّی انسان کے طرح طرح کے تمام تجربات کی خاموش گواہ بھی ہوا کرتی تھی۔
دو ہموار پاٹوں پر مشتمل اس چکّی کے دو گول پتھر ہوتے تھے جن میں ایک کو دوسرے کے اوپر رکھا جاتا تھا۔ اوپر آنے والا گول پتھر، سائز میں عام طور پر تھوڑا سا بڑا ہوتا تھا۔
یہ چکّی اپنی بناوٹ میں سادہ لیکن اپنے وقت کے حساب سے اختراع پسند لوگوں کی ذہین ایجاد ہے۔ اس کے دونوں پتھروں کے وسط میں چھوٹا سا سوراخ ہے جس کے ذریعے چکّی میں پیسنے کے لیے اجناس ڈالی جاتی تھیں۔ لکڑی کا ایک ڈنڈا گھمائی کے دوران چکّی کے توازن کو قائم رکھتا تھا۔
اوپر والے پتھر پر لکڑی کا ایک دستہ بھی لگایا جاتا تھا تاکہ گھماتے وقت گرفت مضبوط رہے اور پسائی کے دوران اوپر والے پتھر کو اس دستے کے ذریعے طاقت لگا کر گھمایا جاتا تھا۔
مریم المبارک جو ورثے کی شوقین ہیں، نے تصدیق کی ہے کہ چکّی، وہ قدیم اوزار ہے جس کی یاد ذہنوں سے آج تک محو نہیں ہوئی۔ اس کے ذریعے مختلف اقسام کے دانے پیسے جاتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ اس چکّی کو چلنے کے لیے اس زمانے کی خواتین کی ہاتھ کی طاقت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔
اس طرح کی چکّی اور مملکت کی خواتین کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہے جس نے طرح طرح کی نفسیاتی، سماجی اور جذباتی جہتیں اختیار کر لی ہیں۔ اس کی اہمیت چکّی سے حاصل ہونے والے عام فائدے سے کہیں آگے ہے۔ یہ چکّی تاریخ کی کتابوں، ادبی فن پاروں اور قدیم بیانیے میں جگہ پا چکی ہے۔
تاریخ دان قدیم عرب معاشروں کی روز مرہ کی زندگی اور قدیم زمانے میں رہنے والوں کے تاریخی ارتقا سے آج کل کی شہری زندگی تک کے طویل سفر کو مؤثر انداز میں بیان کرنے کے لیے اکثر چکّی کے بناوٹ اور اس کے استعمال کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔
