افغان حکام کے مطابق پاکستان پر انحصار کم کرنے کے لیے افغانستان نے ایران اور وسطی ایشیا کے تجارتی راستوں کو زیادہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد سرحد پر آمدورفت اور تجارت بند ہے۔
افغانستان اپنی تجارت کے لیے ہمیشہ پاکستان کی بندرگاہوں پر زیادہ انحصار کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان طویل عرصے سے سرحد پار پاکستانی عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے معاملے پر افغانستان پر دباؤ ڈالتا آیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
افغانستان نے طورخم سرحد بند کر دی، تجارتی سرگرمیاں معطلNode ID: 813521
تاہم بار بار سرحدوں اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی بندش سے بچنے کے لیے اب افغانستان نے ایران کی جانب سے دی گئی تجارتی رعایتوں کا تیزی سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے تاکہ اپنے تجارتی سامان کی ترسیل انڈیا کے زیرکنٹرول ایرانی بندرگاہ چابہار پر منتقل کر سکے۔
وزارت تجارت کے ترجمان عبدالسلام جواد اخونزادہ نے روئٹرز کو بتایا کہ ’گذشتہ چھ ماہ کے دوران ایران کے ساتھ ہماری تجارت ایک ارب 60 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جو پاکستان کے ساتھ ایک ارب 10 کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔‘
چابہار بندرگاہ کی سہولیات نے تجارتی سامان کی ترسیل میں تاخیر کا عمل کم کر دیا ہے اور افغان تاجروں کو یہ اعتماد ملا ہے کہ اب سرحدیں بند ہونے کے باوجود ان کے سامان کی ترسیل نہیں رُکے گی۔
افغانستان کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے افغان تاجروں اور صنعت کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ درآمدات اور برآمدات کے لیے پاکستان پر انحصار کی بجائے متبادل راستے اختیار کریں۔
طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے بدھ کو تاجروں اور صنعت کاروں کے ایک اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ’تمام افغان تاجر اور صنعت کار پاکستان کی بجائے متبادل روٹس پر منتقل ہو جائیں۔‘
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’پاکستانی روٹس کی وجہ سے نہ صرف تاجروں کو نقصان ہوا بلکہ انہوں نے مارکیٹس اور عوام کے لیے بھی مشکلات پیدا کیں۔‘

ملا عبدالغنی برادر نے پاکستان کے ساتھ تجارت برقرار رکھنے والے تاجروں کو خبردار کیا کہ ’اسلامی امارت (طالبان حکومت) ان کے ساتھ کوئی تعاون کرے گی نہ ہی ان کی کوئی بات سنی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے شعبۂ صحت کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان سے ناقص معیار کی ادویات کا درآمد ہونا ہے۔میں ادویات کے تمام درآمد کنندگان کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر متبادل سپلائی روٹس پر منتقل ہو جائیں۔‘
طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’پاکستان سے ادویات درآمد کنندگان کو تین ماہ کا وقت دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا حساب کتاب مکمل کر کے اپنے کھاتے بند کر سکیں۔‘
ملا عبدالغنی برادر نے اپنے خطاب میں اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی کہ افغانستان کو درآمدات اور برآمدات کے لیے متبادل راستے میسر ہیں کیونکہ کابل کے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تجارتی روابط قائم ہو چکے ہیں۔
’اسلامی امارت افغانستان علاقائی و بین الاقوامی رسائی کے لیے دیگر تجارتی روٹس قائم کرنے اور پہلے سے موجود راستوں کو تکنیکی اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے معیاری بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔‘













