Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے ساتھ کشیدگی، افغانستان کا تجارت کے لیے ایران پر انحصار

افغان حکام کے مطابق پاکستان پر انحصار کم کرنے کے لیے افغانستان نے ایران اور وسطی ایشیا کے تجارتی راستوں کو زیادہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد سرحد پر آمدورفت اور تجارت بند ہے۔
افغانستان اپنی تجارت کے لیے ہمیشہ پاکستان کی بندرگاہوں پر زیادہ انحصار کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان طویل عرصے سے سرحد پار پاکستانی عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے معاملے پر افغانستان پر دباؤ ڈالتا آیا ہے۔
تاہم بار بار سرحدوں اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی بندش سے بچنے کے لیے اب افغانستان نے ایران کی جانب سے دی گئی تجارتی رعایتوں کا تیزی سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے تاکہ اپنے تجارتی سامان کی ترسیل انڈیا کے زیرکنٹرول ایرانی بندرگاہ چابہار پر منتقل کر سکے۔
وزارت تجارت کے ترجمان عبدالسلام جواد اخونزادہ نے روئٹرز کو بتایا کہ ’گذشتہ چھ ماہ کے دوران ایران کے ساتھ ہماری تجارت ایک ارب 60 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جو پاکستان کے ساتھ ایک ارب 10 کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔‘
چابہار بندرگاہ کی سہولیات نے تجارتی سامان کی ترسیل میں تاخیر کا عمل کم کر دیا ہے اور افغان تاجروں کو یہ اعتماد ملا ہے کہ اب سرحدیں بند ہونے کے باوجود ان کے سامان کی ترسیل نہیں رُکے گی۔
افغانستان کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے افغان تاجروں اور صنعت کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ درآمدات اور برآمدات کے لیے پاکستان پر انحصار کی بجائے متبادل راستے اختیار کریں۔
طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے بدھ کو تاجروں اور صنعت کاروں کے ایک اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ’تمام افغان تاجر اور صنعت کار پاکستان کی بجائے متبادل روٹس پر منتقل ہو جائیں۔‘
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’پاکستانی روٹس کی وجہ سے نہ صرف تاجروں کو نقصان ہوا بلکہ انہوں نے مارکیٹس اور عوام کے لیے بھی مشکلات پیدا کیں۔‘

افغان حکام کے مطابق ’ایران کے ساتھ ان کے ملک کی تجارت کا حجم پاکستان سے بڑھ گیا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ملا عبدالغنی برادر نے پاکستان کے ساتھ تجارت برقرار رکھنے والے تاجروں کو خبردار کیا کہ ’اسلامی امارت (طالبان حکومت) ان کے ساتھ کوئی تعاون کرے گی نہ ہی ان کی کوئی بات سنی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے شعبۂ صحت کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان سے ناقص معیار کی ادویات کا درآمد ہونا ہے۔میں ادویات کے تمام درآمد کنندگان کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر متبادل سپلائی روٹس پر منتقل ہو جائیں۔‘
طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’پاکستان سے ادویات درآمد کنندگان کو تین ماہ کا وقت دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا حساب کتاب مکمل کر کے اپنے کھاتے بند کر سکیں۔‘
ملا عبدالغنی برادر نے اپنے خطاب میں اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی کہ افغانستان کو درآمدات اور برآمدات کے لیے متبادل راستے میسر ہیں کیونکہ کابل کے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تجارتی روابط قائم ہو چکے ہیں۔
’اسلامی امارت افغانستان علاقائی و بین الاقوامی رسائی کے لیے دیگر تجارتی روٹس قائم کرنے اور پہلے سے موجود راستوں کو تکنیکی اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے معیاری بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔‘

انڈیا کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لیے افغان وزیر خارجہ نے گذشتہ ماہ انڈیا کا دورہ کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

طالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغانستان کے ساتھ انڈیا کے اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے لیے گذشتہ ماہ نئی دہلی کا دورہ بھی کیا تھا۔
اپنے دورے کے دوران انہوں ںے انڈین صنعت کاروں اور کاروباری افراد سے بھی ملاقات کی تھی۔
افغان وزیر خارجہ نے انڈین کاروباری شخصیات، بشمول تاجر اور وہ کمپنیاں جو افغانستان میں پہلے سے کام کر رہی ہیں یا مستقبل میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہیں، کو مکمل تعاون اور تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔
اپنے دورے کے دوران امیر خان متقی نے انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے اعلان کیا کہ ’انڈیا-افغانستان ایئر فریٹ کوریڈور کو دوبارہ فعال کیا جائے گا۔‘
یہ فضائی کارگو راہداری پہلی بار سنہ 2017 میں متعارف کرائی گئی تھی تاکہ زمینی راستوں میں حائل رکاوٹوں، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ سیاسی کشیدگی کے سبب، تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
انڈین حکام کے مطابق اس کارگو کوریڈور میں امرتسر، کابل اور قندھار کے درمیان پروازیں شامل ہوں گی، اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط بڑھیں گے بلکہ سیاحت، خاص طور پر طبی سیاحت میں بھی اضافہ کرے گا۔‘

شیئر: