سرحدی جھڑپوں کے بعد پاکستان افغانستان کے درمیان امن مذاکرات میں پیش رفت
طالبان حکومت نے پاکستان پر سپین بولدک میں فائرنگ شروع کرنے کا الزام لگایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جمعرات کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے بعد جمعے کے روز استنبول میں افغان اور پاکستانی مذاکرات کار اہم امن بات چیت میں مصروف رہے، جس میں کمزور جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکیہ میں ہونے والے یہ مذاکرات اس جنگ بندی کو مضبوط بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں جو گزشتہ ماہ قطر میں طے پائی تھی۔ جنگ بندی سے ایک ہفتے تک جاری رہنے والی شدید جھڑپوں کا خاتمہ ہوا تھا جن میں درجنوں افراد مارے گئے۔
دونوں ہمسایہ ممالک نے جھڑپوں کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرایا، لیکن مذاکرات کے لیے اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
افغان علاقے سپین بولدک کے 30 سالہ رہائشی عین اللہ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے بچے ہیں، نوجوان لڑکے ہیں۔ یہ اب ہماری روزمرہ زندگی بن گئی ہے۔ یہ سب رکنا چاہیے تاکہ ہم سکون سے جی سکیں۔‘
ضلعی اسپتال کے ایک اہلکار کے مطابق سرحدی قصبے میں چار خواتین اور ایک مرد جان سے گئے، جبکہ اے ایف پی کے صحافیوں نے کئی تباہ شدہ گھروں کا مشاہدہ کیا۔
سرحد کے دوسری جانب چمن میں پاکستانی مزدور محب اللہ اچکزئی نے بتایا کہ وہ کرکٹ کھیل رہے تھے جب اچانک حالات بہت خراب ہو گئے۔
انہوں نے کہا، ’یہاں معصوم بچے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ سب کی حفاظت کے لیے علاقے پر نگرانی رکھی جائے۔‘
طالبان حکومت نے پاکستان پر سپین بولدک میں فائرنگ شروع کرنے کا الزام لگایا۔
ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کو کہا، ’اسلامی امارت کی فورسز نے مذاکراتی ٹیم کے احترام میں اور شہری جانی نقصان سے بچنے کے لیے اب تک کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔‘
پاکستان نے یہ الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغان فورسز نے پہلے فائرنگ کی، اور پاکستانی فوج نے محتاط اور ذمہ دارانہ انداز میں جواب دیا۔
پاکستان کی وزارتِ اطلاعات کے مطابق، ’پاکستانی افواج کی ذمہ دارانہ کارروائی سے حالات پر قابو پا لیا گیا اور جنگ بندی برقرار ہے۔‘
مزید کہا گیا کہ پاکستان ’جاری مذاکرات کے لیے پُرعزم ہے اور افغان حکام سے بھی اسی جذبے کی توقع رکھتا ہے۔‘
’جنگ کو ہم سے دور رکھیں‘
اسلام آباد نے کابل پر الزام لگایا ہے کہ وہ عسکریت پسند گروہوں، خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، کو پناہ دیتا ہے، جو پاکستان میں خونریز حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ افغان طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرآبی نے جمعے کو کہا، ’پاکستانی وفد نے ثالثوں کو شواہد پر مبنی، جائز اور منطقی مطالبات پیش کیے ہیں، جن کا واحد مقصد سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔‘
مذاکرات سے واقف ایک افغان ذریعے نے کہا کہ پاکستان کے مطالبات، جیسے اپنی اندرونی سلامتی کو یقینی بنانا، ’افغانستان سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’دوسری جانب، پاکستان اسلامی امارت کے اس معقول مطالبے کو قبول نہیں کرتا کہ اس کی زمین یا فضائی حدود کسی دوسرے ملک یا داعش کے لیے استعمال نہ ہو۔‘
داعش کا ایک مقامی گروہ مشرقی افغانستان میں سرگرم ہے، جو وقفے وقفے سے حملے کرتا ہے اور طالبان حکومت کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے مذاکرات اس وقت رک گئے جب جنگ بندی کی تفصیلات طے کرنے پر اختلافات سامنے آئے، دونوں فریق ایک دوسرے کو رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے رہے۔
سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے عبدالـباسط کا کہنا ہے، ’یہ تعطل ظاہر کرتا ہے کہ جو کشیدگی پہلے دبی ہوئی تھی، اب کھل کر سامنے آ گئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’اصل مسئلہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے۔ مجھے حیرت نہیں ہوگی اگر یہ مذاکرات ناکام ہو جائیں۔‘
دونوں فریقوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو دوبارہ لڑائی چھڑ سکتی ہے۔
چمن کے رہائشی عبدالحبیب نے کہا، ’گولیاں ہمارے گھروں پر لگیں، لوگ شدید پریشانی میں ہیں۔ ہم حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے حالات پر توجہ دیں اور ہمدردی دکھائیں۔ اللہ ان کے درمیان امن پیدا کرے اور صلح کرائے۔‘
اکتوبر میں جھڑپوں کا آغاز کابل میں دھماکوں سے ہوا تھا جن میں پانچ افراد مارے گئے تھے۔ طالبان نے ان حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کیا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، بعد ازاں ہونے والی لڑائی میں افغانستان میں 50 شہری ہلاک اور 447 زخمی ہوئے۔
پاکستانی فوج نے کہا کہ اس کے 23 اہلکار جاں سے گئے اور 29 زخمی ہوئے تھے۔
جمعرات کو مقامی باشندوں نے بتایا کہ تشدد صرف 10 سے 15 منٹ تک جاری رہا، لیکن حالات کے بگڑنے کا خدشہ برقرار ہے۔
سپین بولدک کے 35 سالہ رہائشی نور محمد نے کہا، ’ہم دونوں حکومتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری حالت پر توجہ دیں۔‘
