پنجاب کے دل لاہور میں کبھی فلم انڈسٹری کی بازگشت باری سٹوڈیو، شاہ نور اور ایورنیو کے فلورز پر سنائی دیتی تھی۔ کیا اب یہ فلمی صنعت نیا جنم لینے جا رہی ہے؟ اس کا جواب بظاہر تو ہاں میں ہے کیونکہ پنجاب حکومت ایک مربوط، جدید اور عالمی معیار کی فلم سٹی تعمیر کرنے جا رہی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق حکومت یہ فلم سٹی لاہور کے اندر 56 ایکڑ زمین پر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، اور اس کا پی سی ون تیار ہو چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ منصوبہ اگر عملی جامہ پہن لے تو نہ صرف فلم سازوں کے لیے ایک ہی جگہ تمام سہولیات فراہم کرنے والا مرکز بن سکتا ہے بلکہ روزگار، سیاحت اور جدید ٹیکنالوجی کے نئے در بھی کھول سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستانی فلمی صنعت میں عالمی سرمایہ کاروں کی دلچسپیNode ID: 307236
-
فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ لکس ایوارڈ میں بھی نامزدگیوں سے محرومNode ID: 794601
فلم سٹی منصوبہ ہے کیا؟
حال ہی میں محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب نے فلم سٹی کا بجٹ حاصل کرنے کے لیے وزیراعلٰی آفس کو جو رپورٹ ارسال کی ہے، اس کے مندرجات کے مطابق ’ملکی فلمی نظام گذشتہ کئی دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔ کم سرمایہ کاری، پرانے انفراسٹرکچر، پوسٹ پروڈکشن کی کمزور صلاحیتوں، سینما گھروں کی بندش اور عالمی سطح پر کمزور روابط نے فلمی پیداوار کو شدید متاثر کیا۔‘
’انہی وجوہات کے تحت فلم سٹی کا تصور پیش کیا گیا ہے جس کی اساس یہ ہے کہ فلم سازی، پوسٹ پروڈکشن، ڈبنگ، ساؤنڈ ڈیزائن، وی ایف ایکس، ایڈیٹنگ اور دیگر تمام سہولیات ایک ہی کیمپس میں موجود ہوں اور پورا نظام او ٹی ٹی یعنی آن لائن سٹریمنگ پلیٹ فارمز کے عالمی معیار کے مطابق تیار کیا جائے۔‘
اس منصوبے پر عمل درآمد کرانے والی ایجنسی انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب ہو گی جو پہلے ہی بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں پر کام کر چکی ہے۔ اس اتھارٹی نے عالمی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے 56 ایکڑ پر مشتمل فلم سٹی کے لیے متعدد تکنیکی خاکے اور پی سی ون تیار کیے ہیں۔
آئندہ مالی سال میں فلم سٹی کو بجٹ میں رکھنے کے لیے اسے آئندہ اجلاس میں کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
لاہور کی فلم سٹی اور دنیا
دنیا کے بڑے فلمی مراکز کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ جدید فلم سٹی صرف عمارتوں اور سٹوڈیوز کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ یہ تخلیق، ٹیکنالوجی، تربیت، وسائل اور مکمل پیداواری عمل کا باہم جڑا ہوا نظام ہوتا ہے۔ انڈیا کے شہر حیدرآباد میں واقع راموجی فلم سٹی دنیا کا سب سے بڑا فلمی کمپلیکس تصور کیا جاتا ہے جو ہزاروں ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں متعدد ساؤنڈ پروف سٹوڈیوز، پوسٹ پروڈکشن لیبارٹریاں، وی ایف ایکس، ڈبنگ تھیٹرز، اوپن ایئر لوکیشنز، انڈور سیٹس، تکنیکی ورکشاپس اور سیاحتی سرگرمیاں ایک ہی جگہ موجود ہیں۔
فلم ساز یہاں سکرپٹ ورکشاپ سے لے کر شوٹنگ، ایڈیٹنگ، کلر گریڈنگ، ساؤنڈ مکسنگ اور فلم کی ریلیز تک پورا عمل ایک ہی مرکزی نظام میں مکمل کر سکتے ہیں یہی جدید فلم سٹی ماڈل ہے۔

اسی طرح ممبئی کی دادا صاحب پھالکے فلم سٹی بھی انڈین ریاست کی جانب سے بنائی گئی ایک سرکاری سہولت ہے جس میں مختلف سٹوڈیو فلورز، لوکیشن سیٹس، پوسٹ پروڈکشن سہولیات اور پرائیویٹ پارٹنرشپس موجود ہیں۔ دنیا بھر میں نئے فلم سٹی ماڈلز میں ساؤنڈ پروف فلورز، ڈیجیٹل انٹرمیڈیئیٹ اور کلر گریڈنگ کے جدید کمروں، ڈولبی اَیٹموس ساؤنڈ مکسنگ تھیٹرز، وی ایف ایکس اور سی جی آئی لیبارٹریوں، موشن کیپچر ٹیکنالوجی اور سب سے بڑھ کر ورچوئل پروڈکشن یعنی ایل ای ڈی وال کے ساتھ شوٹنگ جیسے جدید تصورات شامل کیے جا رہے ہیں، جن کی مدد سے وقت اور بجٹ دونوں میں نمایاں کمی آتی ہے۔ جدید فلم سٹی کا اصل جوہر یہ ہے کہ پروڈیوسر کو پروڈکشن لائن کا ہر مرحلہ ایک ہی دروازے کے نیچے میسر آ جائے۔
اس حوالے سے ٹی وی پروڈکشن سے وابستہ ڈائریکٹر کامران علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان خصوصاً کراچی کی موجودہ صورت حال دنیا سے خاصی مختلف ہے۔ پاکستانی فلمی صنعت جو کبھی لاہور میں آباد تھی، گذشتہ دو دہائیوں سے اپنا بنیادی پیداواری کام کراچی منتقل کر چکی ہے جہاں ٹیلی ویژن چینلز، اشتہاری صنعت اور پروڈکشن ہاؤسز پہلے ہی مضبوط تھے۔‘
’پاکستان میں سنہ 2007 کے بعد ڈیجیٹل کیمرہ ٹیکنالوجی، ریڈ اور ایری الیکسا کی آمد کے بعد پروڈکشن میں بہتری آئی اور پوسٹ پروڈکشن کے لیے کلر گریڈنگ، ایڈیٹنگ اور ساؤنڈ سٹوڈیوز بھی قائم ہوئے، مگر ان کا دائرہ کار زیادہ تر ڈرامہ اور ٹی وی کمرشلز تک محدود رہا، جبکہ فلمی سطح کے مکمل مربوط سٹوڈیو اب بھی ناپید ہیں۔‘

ان کہنا تھا کہ ’کراچی میں موجود سٹوڈیوز اور کرائے پر دستیاب ساز و سامان اپنی جگہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں مگر بڑی فنی خامیاں اب بھی موجود ہیں۔ سٹوڈیو فلورز، پوسٹ پروڈکشن، وی ایف ایکس لیبارٹریاں اور ساؤنڈ مکسنگ تھیٹر سب مختلف مقامات پر بکھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ معیار کی وی ایف ایکس اور سی جی آئی سروسز محدود ہیں، ورچوئل پروڈکشن اور ایل ای ڈی وال ٹیکنالوجی ابھی بہت ابتدائی شکل میں موجود ہے اور فلمی پروڈکشن کے جدید عالمی علوم پر باقاعدہ تربیت یافتہ افرادی قوت کا مستقل نظام بھی کمزور ہے۔‘
’یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فلم ساز اکثر پیچیدہ پوسٹ پروڈکشن، وی ایف ایکس یا اعلٰی سطح کی ساؤنڈ مکسنگ بیرون ملک سے کرواتے ہیں۔‘
’یہ پاکستان کی موجودہ تقسیم شدہ پروڈکشن لائن کو یکجا کرے گا‘
مبصرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان میں بھی فلم پروڈکشن ایک ہی چھت کے نیچے شفٹ ہو جائے تو یہ انقلابی اقدام ہو سکتا ہے۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات اعظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ ’لاہور فلم سٹی ایک مربوط فلمی مرکز کے طور پر وجود میں آئے گی اور یہ پاکستان کی موجودہ تقسیم شدہ پروڈکشن لائن کو یکجا کرے گا۔ یہاں بڑے ساؤنڈ پروف سٹیجز، ڈیجیٹل انٹرمیڈیئیٹ اور کلر گریڈنگ کمروں، ڈولبی اَیٹموس ساؤنڈ مکسنگ تھیٹرز، وی ایف ایکس، سی جی آئی اور موشن کیپچر لیبارٹریوں کے ساتھ ساتھ ورچوئل پروڈکشن ٹیکنالوجی بھی شامل ہو گی۔ اس مرکز میں تربیت یافتہ نوجوان فلم میکرز، ایڈیٹرز، ساؤنڈ انجینیئرز اور وی ایف ایکس ماہرین کی تیاری کے لیے خصوصی تربیتی شعبے بھی قائم ہوں گے۔ اس طرح یہ فلم سٹی نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے فلمی مستقبل کے لیے ایک مرکزی ستون بنے گا۔ اس حوالے سے ہماری پوری تیاری ہے۔ انڈسٹری اب لاہور سے کھڑی ہو گی۔‘

ٹی وی اداکارہ سونیا راؤ کا کہنا تھا کہ ’عالمی فلمی صنعت کے نئے رجحانات میں او ٹی ٹی پلیٹ فارمز، ویب سیریز، مختصر فلمیں، ڈیجیٹل مواد اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے ایڈیٹنگ، سکرپٹ کی تشخیص اور ویڈیو پروڈکشن کے اب نئے سٹینڈرڈ سیٹ ہو چکے ہیں۔ اگر لاہور کی فلم سٹی ان جدید تقاضوں کے مطابق تیار ہوتی ہے تو پاکستان کو عالمی پروڈکشن نیٹ ورکس میں بھی اہم مقام حاصل ہو سکتا ہے۔‘












