Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برفانی تیندوا چترال کے گاؤں میں گھس گیا، ’نایاب جانور کا دوبارہ نظر آنا خوش آئند‘

خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر چترال کے علاقے گرم چشمہ کی منور ویلی میں معدومیت کے خطرے سے دوچار نایاب برفانی تیندوا گاؤں میں داخل ہو گیا، جس کی مقامی افراد نے ویڈیو بھی بنا لی۔
ویڈیو منظرِعام پر آنے کے بعد محکمہ جنگلی حیات خیبرپختونخوا نے علاقے میں نگرانی بڑھا دی ہے اور مقامی آبادی کو حفاظتی اقدامات سے آگاہ کر دیا ہے۔
منور ویلی، جو سطح سمندر سے 9 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع ہے، میں بدھ کی صبح برفانی تیندوے کی آمد ریکارڈ کی گئی۔ محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق 2015 کے بعد پہلی مرتبہ اس نایاب جنگلی بلی کو اس وادی میں دیکھا گیا ہے۔
ڈویژنل فارسٹ آفیسر وائلڈ لائف فارق نبی نے اردو نیوز کو بتایا کہ برفانی تیندوے کا دوبارہ نظر آنا نہایت خوش آئند اور اس کے قدرتی مسکن کی صحت کا اہم ثبوت ہے۔
ان کے مطابق یہ خطہ برفانی تیندے کے روایتی کوریڈور کا حصہ ہے، اس لیے اس کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ ماحول اب بھی اس کے لیے موزوں ہے۔
فارق نبی کا کہنا تھا کہ تیندوا گاؤں کے ایک مویشی خانے میں گھس آیا جہاں اس نے دو بکریاں ہلاک کر دیں۔
فارق نبی نے بتایا کہ انہیں خدشہ تھا کہ مویشیوں کے نقصان کے باعث گاؤں والے اس نایاب جانور کو نقصان نہ پہنچا دیں، اس لیے وہ فوری طور پر ٹیم کے ہمراہ گاؤں پہنچے۔
’ہم نے لوگوں کو یقین دلایا کہ ان کا نقصان محکمہ وائلڈ لائف پورا کرے گا، لہٰذا برفانی تیندوے کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔‘
ویلیج کونسل اوویرک کے چیئرمین شاہ عبدالرحیم نے بتایا کہ فجر کے وقت ایک خاتون نے تیندوے کو گاؤں میں داخل ہوتے دیکھا اور بعد ازاں امام مسجد سمیت دیگر افراد نے اس کی ویڈیو بنائی۔

پاکستان میں برفانی تیندووں کی تعداد کا تخمینہ 100 سے 200 کے درمیان ہے. 

ان کا کہنا تھا کہ گاؤں میں جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق پہلے ہی خاصی آگاہی موجود ہے۔
’ہم جانتے ہیں کہ برفانی تیندوا نایاب ہے، اس کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ مختلف این جی اوز اور محکمہ وائلڈ لائف کی آگاہی مہم نے ہمارے شعور میں اضافہ کیا ہے۔‘

پاکستان میں برفانی تیندے کا کلیدی علاقہ

پاکستان میں برفانی تیندے پر کام کرنے والے بنیادی اداروں میں Snow Leopard Foundation شامل ہے، جو خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے پہاڑی سلسلوں میں کیمرہ ٹریپ سروے، مقامی آبادی کے ساتھ ہم آہنگی، مویشیوں کے نقصانات کے معاوضے اور کمیونٹی انگیجمنٹ جیسے پروگرام چلا رہا ہے۔
ایس ایل ایف کے مطابق چترال، ہندوکش اور بروغل نیشنل پارک کے پہاڑ پاکستان میں برفانی تیندوے کے بنیادی کوریڈور ہیں۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے مطابق برفانی تیندوا عالمی سطح پر Vulnerable  کیٹیگری میں شامل ہے، جبکہ پاکستان میں اسے Critically Endangered سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ برس ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان، ایس ایل ایف اور  محکمہ وائلڈ لائف کی مشترکہ سٹڈی میں چترال اور ملحقہ پہاڑی علاقوں کو پاکستان میں برفانی تیندوے کی بقا کے لیے فیصلہ کن خطہ قرار دیا گیا تھا۔
پاکستان میں برفانی تیندووں کی تعداد کا تخمینہ 100 سے 200 کے درمیان ہے، جبکہ فارق نبی کا کہنا ہے کہ ایس ایل ایف کے سروے میں صرف چترال میں 30 سے 35 برفانی تیندوے موجود ہیں۔
ان کے مطابق حالیہ مہینوں میں چترال کے مختلف علاقوں میں برفانی تیندوا متعدد بار کیمرہ ٹریپ میں ریکارڈ ہوا ہے، جبکہ منور ویلی میں اس کا گاؤں تک آ جانا اس بات کی علامت ہے کہ اس کے تحفظ کے لیے جاری کوششیں مثبت نتائج دے رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق چترال جیسے خطے افغانستان اور تاجکستان تک پھیلے ہوئے Cross-border Corridor کا حصہ ہیں، جو برفانی تیندوے کی نقل و حرکت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

شیئر: