Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں بڑھتے ہوئے سائبر فراڈ، ایف آئی اے کا نیا الیکٹرانک نوٹس سسٹم کیا ہے؟

حکام کا کہنا ہے کہ ایسے کیسز میں چلنے والے جعلی نوٹسز بظاہر اصل لگتے ہیں (فائل فوٹو: ایف آئی اے)
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ملک بھر میں شہریوں کو طلبی کے جعلی نوٹسز کے بڑھتے ہوئے رجحان اور بلیک میلنگ سے بچانے کے لیے تمام دستی اور مینوئل نوٹسز کا اجراء بند کر دیا ہے۔
ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق اب دفعہ 160 کے تحت جاری ہونے والے نوٹسز صرف الیکٹرانک سسٹم کے ذریعے جاری ہوں گے اور ان پر ایک منفرد کیو آر کوڈ درج ہو گا، جس کے ذریعے ہر شہری نوٹس کی فوری تصدیق کر سکے گا۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ کسی بھی نوٹس پر اگر کیو آر کوڈ موجود نہ ہو تو اسے جعلی یا مشکوک تصور کیا جائے اور متعلقہ شخص فوری طور پر ادارے سے رابطہ کرے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ مہینوں میں شہریوں کو جعلی نوٹسز بھجوا کر خوفزدہ کرنے اور پیسے بٹورنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
مختلف گروہ واٹس ایپ، ای میل اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے ایف آئی اے کے نام سے نوٹس بھیجتے ہیں، جن میں شہریوں پر جرائم یا سائبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات درج کیے جاتے ہیں اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے رقم ادا کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔
شمس اقبال کا تعلق سیالکوٹ سے ہے انہوں نے بتایا کہ ’مجھے واٹس ایپ پر ایف آئی اے کا نوٹس موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ میری سوشل میڈیا سرگرمیاں قابلِ گرفتاری ہیں۔ نوٹس میں دھمکی دی گئی کہ اگر میں جواب نہ دوں تو مجھے گرفتار کر لیا جائے گا۔ میں نے متعلقہ دفتر سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی جانب سے تو ایسا کوئی نوٹس جاری ہی نہیں کیا گیا جبکہ نوٹس میں میرے متعلق تمام معلومات اور ڈیٹا حقائق پر مبنی تھا، بس الزامات درست نہ تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ فشنگ فراڈ تھا، اور مقصد صرف بلیک میلنگ تھا۔’
اسی طرح ایک شہری خرم اقبال نے بتایا گیا کہ ان کی بہن کو جعل سازوں نے خود کو ایف آئی اے کا نمائندہ ظاہر کرکے کچھ الزامات پر مبنی نوٹس بھیجا۔ جس میں انہیں یہ بتایا گیا کہ آپ کا اکاونٹ مشکوک سرگرمیوں کی فنڈنگ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جس پر وہ گھبرا گئی۔ جعلی اہلکاروں نے انہیں فون کرکے دھمکایا کہ فوری تصدیق نہ کرنے کی صورت میں قانونی کارروائی شروع کر دی جائے گی۔
اس عمل کے دوران انہوں نے بینک اکاؤنٹ سے دو لاکھ روپے کی رقم نکال لی۔

ایف آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ شہریوں کو دھوکے اور بلیک میلنگ سے بچایا جائے (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

حکام کا کہنا ہے کہ ایسے کیسز میں چلنے والے جعلی نوٹسز بظاہر اصل لگتے ہیں، جن میں فرضی کیس نمبر، جعلی دستخط یا غیرحقیقی سیکریٹ سٹیمپس تک شامل ہوتی ہیں۔
گجرات سے تعلق رکھنے والے ولی احمد نے بتایا کہ میرے خلاف ایک نوٹس سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے پایا گیا تو میرے دوستوں نے مجھے آگاہ کیا۔ اس نوٹس میں میرے خلاف دہشت گردی سے منسلک الزامات درج تھے۔ میرے ہوش اڑ گئے۔ جب میں ایف آئی اے سرکل پہنچا تو وہاں بتایا گیا کہ یہ نوٹس جعلی ہے۔
اس حوالے سے ایف آئی اے افسران کا کہنا ہے کہ جعلی نوٹسز میں اکثر انتہائی خوفناک الزامات اس لیے درج کیے جاتے ہیں تاکہ وصول کنندہ فوری طور پر خوفزدہ ہو جائے اور بغیر کسی تصدیق کے کیس سے بچنے کے چکر میں رقم لٹانے پر تیار ہو جائے۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ادارہ کسی بھی شہری سے فون کال، نوٹس یا پیغام کے ذریعے ذاتی یا مالی معلومات طلب کرتا ہے نہ ہی بینکنگ تفصیلات چاہتا ہے۔

جعلی نوٹسز میں اکثر انتہائی خوفناک الزامات اس لیے درج کیے جاتے ہیں (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

حکام کے مطابق کسی بھی سرکاری نوٹس سے پہلے مکمل تحقیق، واضح کیس نمبر اور باضابطہ طریق کار اختیار کیا جاتا ہے، اس لیے شہریوں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی نا معلوم نمبر سے آنے والی دھمکی آمیز کال یا مشکوک نوٹس پر یقین نہ کریں۔
 ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ایسے جعلی نوٹسز کی فوری شکایت [email protected] پر ای میل یا ہیلپ لائن 1991 کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔
ادارے کا موقف ہے کہ نیا الیکٹرانک نوٹس سسٹم نہ صرف جعلی دستاویزات کے خاتمے کا سبب بنے گا بلکہ عوامی اعتماد بحال کرنے میں بھی مددگار ہو گا۔
ایف آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ شہریوں کو دھوکے اور بلیک میلنگ سے بچایا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک تصدیق پر مبنی نوٹس کا نظام متعارف کرایا جا رہا ہے تاکہ کوئی بھی جعل ساز ادارے کے نام پر عوام کو نقصان نہ پہنچا سکے۔

شیئر: