افغانستان سے ڈرون حملہ، تاجکستان میں تین چینی شہری ہلاک
جمعرات 27 نومبر 2025 19:33
تاجکستان اور افغان طالبان کے درمیان حالیہ مہینوں میں سرحدی جھڑپوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: ابار)
تاجک حکام نے جمعرات کو کہا ہے کہ افغانستان کی سرحد کے قریب سے کیے گئے ایک حملے میں تاجکستان میں کام کرنے والے تین چینی کارکن ہلاک ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاجکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں، اور حالیہ مہینوں میں سرحدی جھڑپوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تاجک وزارتِ خارجہ نے بتایا کہ ملک کے جنوبی حصے میں ایک چینی کمپنی کے کارکنوں کو ڈرون اور فائرنگ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آتشی اسلحے اور دستی بموں سے لیس ڈرون کے ذریعے کیے گئے حملے میں چین کے تین شہری جان سے گئے۔‘
دوشنبہ عام طور پر ایسے واقعات پر باضابطہ تبصرہ نہیں کرتا اور اس نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ اس حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
پہاڑی سرحدی علاقوں میں مختلف عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ سرحد تقریباً 1350 کلومیٹر طویل ہے۔
مسلم اکثریتی آبادی والا ملک تاجکستان، جو سابق سوویت یونین کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، طالبان کی سنہ 2021 میں افغانستان میں واپسی کے بعد سے ممکنہ شدت پسندی کے خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
صدر امام علی رحمان، جو سنہ 1992 سے برسراقتدار ہیں، طالبان کے شدید ناقد ہیں اور انہوں نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی تقریباً چار کروڑ آبادی میں سے قریباً ایک چوتھائی پر مشتمل تاجکوں کے حقوق کا احترام کرے۔
اس کے باوجود تاجکستان نے بعض شعبوں میں محتاط انداز میں روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں، جن میں سفارتی ملاقاتیں، سرحدی شہروں میں منڈیوں کا قیام اور بجلی کی فراہمی شامل ہیں۔
تاجک وزارتِ خارجہ نے جمعرات کو کہا کہ ’ہم پڑوسی ملک (افغانستان) میں موجود جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے سرحدی علاقوں میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کارروائیوں کو دیکھ رہے ہیں۔‘
تاجکستان میں کئی چینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، خصوصاً کان کنی اور قدرتی وسائل کے شعبوں میں، جو اکثر پہاڑی سرحدی حصوں میں واقع ہیں۔
گذشتہ برس بھی افغان سرحد کے نزدیک ایک اسی نوعیت کے حملے میں ایک چینی کارکن ہلاک ہوا تھا۔
