Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دمام میں ’السیف الاجرب‘ مجسمہ تین صدیوں کی کہانی کا عکاس

’یہ میدان ساحلی سیرگاہ کے مقابل 6000 مربع میٹر کے رقبے پر واقع ہے‘ ( فوٹو: سبق)
میدان السیف الاجرب دمام شہر کے جدید تاریخی مجسموں میں سے ایک ہے جو سعودی عرب کی تاریخی شناخت کو ظاہر کرتا ہے اور تین صدیوں پر محیط اس کے قومی ورثے کے ایک حصے کی عکاسی کرتا ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق یہ میدان ساحلی سیرگاہ کے مقابل 6000 مربع میٹر کے رقبے پر واقع ہے اور اسے یوم تاسیس 2025 کی مناسبت سے نائب گورنر مشرقی ریجن شہزادہ سعود بن بندر بن عبد العزیز کی سرپرستی میں اور مشرقی ریجن کے میئر انجینیئر فہد بن محمد الجبیر کی موجودگی میں افتتاح کیا گیا۔
یہ منصوبہ نجی شعبے کے تعاون سے سماجی پہل کے تحت اور مشرقی ریجن میونسپلٹی کی نگرانی میں شہر میں منظرنامے کی بہتری اور معیارِ زندگی کے فروغ کے لئے مکمل کیا گیا ہے۔
مشرقی ریجن کے میئر انجینیئر فہد الجبیر نے بتایا ہے کہ ’یہ میدان ان علامتی منصوبوں میں سے ہے جو یومِ تاسیس کے موقع پر لانچ کئے گئے تاکہ مملکت کی قدیم تاریخ کی عکاسی کرنے والی ایک نمایاں نشانی کے طور پر سامنے آئے‘۔
انہوں نے بتایا ہے کہ ’اس کا ڈیزائن ایسے معمارانہ طرز پر تیار کیا گیا ہے جو سیف الاجرب کی علامتی حیثیت کو مضبوط کرتا ہے‘۔
’اس کی تعمیر سعودی انجینیئروں نے کی ہے اور اس کے وسط میں مملکت کے نقشے کا ایک روشن مجسمہ نصب ہے جہاں تلوار وحدت اور قومی فخر کی علامت کے طور پر ظاہر ہوتی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’یہ میدان سعودی عرب کی اُس تاریخ کو مجسم کرتا ہے جو تقریباً تین صدی قبل امام محمد بن سعود کے ہاتھوں اس کی بنیاد رکھنے سے شروع ہوئی‘۔
واضح رہے کہ میدان میں سیف الاجرب کی تاریخ اور سیرت بیان کرنے والی ایک تعارفی تختی بھی شامل ہے۔
یہ امام ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود آل سعود (1183ھ – 1249ھ)، دوسری سعودی ریاست کے بانی اور شاہ عبدالعزیز کے جدِّ امجد کی تلوار ہے۔
یہ تلوار نجد میں تیار کی گئی تھی اور آج تک محفوظ ہے کیونکہ یہ قومی علامتوں اور اُن تاریخی کارناموں میں سے ایک ہے جنہوں نے اُس دور میں امن کے قیام اور شرعی علم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
اسی طرح یہ تلوار اُس مشہور نظم سے بھی جڑی ہوئی ہے جو فخر اور عظمت کی علامت بن چکی ہے اور جسے سعودی اور عرب نسل در نسل منتقل کرتے آرہے ہیں۔
 

شیئر: