Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بالی وڈ کے ’ہی مین‘ دھرمیندر کی جدوجہد، پہلی محبت اور خوابوں کی جستجو کی کہانی

بالی وڈ کے ’ہی مین‘ کے طور پر معروف، شہرہ آفاق فلم ’شعلے‘ کے جے یعنی دھرمیندر آج ممبئی میں 89 برس کی عمر میں چل بسے۔ انہوں نے سات دہائیوں پر مشتمل اپنے کیریئر میں 300 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔
دھرمیندر نے سال 1960 میں فلم ’دل بھی تیرا ہم بھی تیرے سے‘ بطور ہیرو ڈیبیو کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کردار ان کو ایک میگزین کی جانب سے منعقدہ اداکاری کے مقابلے میں کامیابی پر ملا تھا۔
لیکن دھرمیندر نے ممبئی کی مہان فلم نگری میں اپنی پہچان بنانے کے لیے بہت پہلے سے جدوجہد شروع کر دی تھی۔ وہ اس مقابلے میں کامیاب ہونے سے کئی برس قبل فلموں میں قسمت آزمائی کے لیے ممبئی کا رُخ کر چکے تھے۔ وہ اپنی اس کوشش میں تو کامیاب نہ ہو سکے مگر دلیپ کمار کے گھر میں بغیر اجازت کے گھس گئے اور یوں اپنے پسندیدہ اداکار سے ملاقات کرنے میں کامیاب رہے۔
دھرمیندر نے یہ واقعہ دلیپ کمار کی خود نوشت میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے سال 1952 میں اپنی پہلی فلم سے آٹھ سال قبل ممبئی کا رُخ کیا اور دلیپ کمار سے ملنے کا پکا ارادہ کیا، جو اُس وقت بالی وڈ کے واحد سپرسٹار تھے۔‘
انہوں نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی وجہ سے مجھے اس سوچ نے گرفت میں لے لیا کہ میں اور دلیپ کمار بھائی ہیں۔‘
دھرمیندر اس ممبئی یاترا کے دوران دلیپ کمار کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ گھر پر کوئی سکیورٹی گارڈ نہیں تھا تو وہ گھر میں داخل ہو گئے۔
وہ دلیپ کمار کے بیڈروم میں پہنچ گئے جہاں وہ آرام کر رہے تھے۔ دلیپ کمار اچانک جاگے تو دھرمیندر گھبرا کر رفوچکر ہو گئے اور انہیں تب اپنی حرکت کی سنگینی کا احساس ہوا۔
انہوں نے اس بارے میں کہا تھا کہ ’مجھے اندازہ ہوا کہ میں ایک سپرسٹار کے نجی لمحوں میں مخل ہوا تھا۔ چاہے دروازے پر کوئی چوکیدار نہیں تھا یا گھر میں کوئی روکنے والا نہیں تھا، لیکن مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘

سنہ 1997 میں فلم فیئر نے دھرمیندر کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا (فوٹو: اے ایف پی)

چھ سال بعد دھرمیندر نے فلم فیئر کا مقابلہ جیت لیا اور اگرچہ انہیں کسی اور فلم سے آغاز کرنا تھا لیکن انہوں نے بالآخر ارجن ہنگورانی کی  فلم ’دل بھی تیرا ہم بھی تیرے سے‘ ڈیبیو کیا۔ یہ فلم باکس آفس پر تو کوئی جادو جگانے میں کامیاب نہ ہو سکی مگر سال 1961 میں ’شعلہ اور شبنم‘ کی ریلیز پر نو آموز اداکار دھرمیندر پروڈیوسرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہے۔
وہ جلد ہی سال 1962 میں ریلیز ہوئی فلم ’ان پڑھ‘ (جس میں مالا سنہا نے بھی کام کیا) اور سال 1963 میں بے مثل ہدایت کار بمل رائے کی یادگار فلم ’بندنی‘ میں نظر آئے جو اُن کے ابتدائی کیریئر کی اہم ترین فلموں میں سے ایک تھی۔
دھرمیندر کی اس کے بعد اگلی بڑی فلم اولڈ راوین چیتن آنند کی ’حقیقت‘ تھی، جو سال 1962 کی انڈیا چین جنگ کے موضوع پر تھی۔ فلم باکس آفس پر زبردست  کامیاب رہی اور اس کا گیت ’اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘ ایورگرین قرار پایا جبکہ دھرمیندر کی اداکاری کو بھی سراہا گیا۔
کچھ ہی عرصہ بعد وہ سال 1966 میں او پی رلہن کی فلم ’پھول اور پتھر‘ میں نظر آئے جس کی ریلیز کے ساتھ ہی ان کا شمار صفِ اول کے اداکاروں میں کیا جانے لگا۔
لیجنڈ ہدایت کار ہری کیش مکھرجی کی فلم ’انوپما‘ میں دھرمیندر کی اداکاری کو بے پناہ سراہا گیا اور یہ فلم نیشنل ایوارڈ جیتنے میں بھی کامیاب رہی۔
ہری کیش مکھرجی نے سال 1998 میں فلم فیئر میگزین سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دھرمیندر ان کے پسندیدہ اداکار تھے۔‘

دھرمیندر کی آئندہ فلم دسمبر میں ریلیز ہو گی (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’دھرمیندر نے مجھے صرف اپنی اداکاری سے ہی نہیں بلکہ ایک انسان کے طور پر بھی متاثر کیا۔ انہوں نے میری فلم ’چپکے چپکے‘ میں پروفیسر کا کردار ادا کیا۔ وہ میری ایک اور فلم ’ستیا کام‘ میں بھی دکھائی دیے جو میری چند بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔‘
دھرمیندر نے ان دنوں ہی جیا بچن کی فلم ’گُڈی‘ میں اپنا ایک خیالی کردار بھی ادا کیا۔
سنہ 1960 کی دہائی کے اوآخر میں جب بالی وڈ پر راجیش کھنہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا تو دھرمیندر اس عرصے میں بھی اپنی منفرد پہچان برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔
لیکن 1970 کی دہائی کے آغاز میں جب امیتابھ بچن کا ’اینگری ینگ مین‘ کے طور پر ظہور ہوا تو دھرمیندر کی ایکشن فلمیں مرکزی دھارے میں چھا گئیں جن میں ’یادوں کی بارات‘، ’بلیک میل‘ اور ’لوفَر‘ نمایاں ہیں جن میں وہ روایتی ہیرو کے کردار میں دکھائی دیے مگر سال 1975 میں فلم ’شعلے‘ کی ریلیز کے ساتھ ہی دھرمیندر کے نئے فنی سفر کا آغاز ہوا۔
انڈین سینما کی مقبول ترین فلموں میں سے ایک ’شعلے‘ میں دھرمیندر نے امیتابھ بچن، ہیما مالنی، سنجیو کمار، امجد خان اور جیا بچن کے ساتھ کام کیا اور جاسوس کردار ’جے‘ کے طور پر نظر آئے۔ فلم نے باکس آفس پر تاریخ رقم کی جب کہ فلم کے گیت ’اور یہ دوستی‘ اور ’ہولی کے دن‘ عوامی ثقافت کا مستقل حصہ بن گئے۔
اسی سال دھرمیندر ’چپکے چپکے‘ میں بھی نظر آئے جسے بہت سے لوگوں نے ان کی ’بہترین مزاحیہ فلم‘ قرار دیا۔ انہوں نے اس دور میں اپنی ڈریم گرل یعنی ہیما مالنی کے ساتھ بھی بہت سی فلموں میں کام کیا۔

دھرمیندر نے اپنی اہلیہ ہیما مالنی کے ہمراہ بھی کئی فلموں میں کام کیا (فوٹو: اے ایف پی)

دھرمیندر 1970 کی دہائی کے اوآخر میں ’دھرم ویر‘، ’چرس‘، ’شالیمار‘ اور ’دی برننگ ٹرین‘ جیسی کامیاب فلموں میں دکھائی دیے۔ اس دور کی بے شمار کامیاب فلموں کے باوجود دھرمیندر نے کبھی کوئی مقبول فلمی ایوارڈ نہیں جیتا۔
سنہ 1997 میں فلم فیئر نے انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا اور سال 2012 میں حکومتِ ہند نے انہیں ملک کے تیسرا بڑے شہری اعزاز ’پدم بھوشن‘ سے نوازا۔
سنہ 1980 کی دہائی میں دھرمیندر کے کیریئر میں اس وقت اچانک ڈرامائی تبدیلی آئی جب متوازی سنیما کے عہد کا آغاز ہوا۔ فلم ساز کم بجٹ فلمیں بنانے لگے اور اس دور کے بہت سے نمایاں اداکار ایسی فلموں میں دکھائی دینے لگے جو ان کی شخصیت کے معیار کے مطابق نہیں تھیں۔ دھرمیندر کے کیریئر کا یہ مرحلہ کسی حد تک راجیش کھنہ سے ملتا جلتا تھا مگر راجیش کھنہ کے برعکس دھرمیندر کم بجٹ کی ایکشن فلموں میں بھی سکرین پر حاوی رہے۔
سنہ 1990 کی دہائی آتے ہی بالی وڈ کی فضا بدلنے لگی اور شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان کی مقبولیت کے ساتھ صنعت کا مزاج بھی تبدیل ہو گیا۔ اس دور میں بھی دھرمیندر نے اپنی روایت برقرار رکھی اور مسلسل ایکشن فلموں میں کام کرتے رہے۔ وہ تب تک اپنا پروڈکشن ہاؤس ’وجیتا فلمز‘ قائم کر چکے تھے تو انہوں نے سنہ 1983 میں ریلیز ہوئی فلم ’بیتاب‘ کے ذریعے اپنے صاحب زادے اور معروف اداکار سنی دیول کو فلمی دنیا میں متعارف کروایا۔
وجیتا فلمز نے بعدازاں ’گھائل‘ اور ’گھاتک‘ جیسی کامیاب فلمیں بنائیں۔ دھرمیندر نے سنہ 1995 میں فلم ’برسات‘ کے ذریعے اپنے چھوٹے بیٹے بوبی دیول کو بھی لانچ کیا۔ ’گھائل‘ نے نیشنل فلم ایوارڈز میں ’بہترین مقبول فلم‘ کا اعزاز حاصل کیا۔ سال 1999 میں انہوں نے ’دل لگی‘ بنائی جس میں دونوں دیول بھائیوں نے کام کیا اور یہ اس زمانے کی مہنگی ترین بھارتی فلموں میں شمار ہوتی تھی۔

فلم ’اپنے‘ میں دھرمیندر کے ساتھ ان کے دونوں بیٹوں نے بھی کام کیا (فوٹو: اے ایف پی)

2000 کی دہائی میں دھرمیندر نے دوبارہ فلموں میں واپسی کی جب وہ سال 2007 میں ریلیز ہوئی فلم ’اپنے‘ اور ’لائف اِن اے میٹرو‘ میں نظر آئے۔ ’اپنے‘ (ہدایت کار: انیل شرما) میں ان کے دونوں بیٹوں نے بھی کام کیا اور اس فلم نے دیول خاندان کو ایک بار پھر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
گزشتہ چند برسوں میں انہوں نے کرن جوہر کی فلم ’راکی اور رانی کی پریم کہانی‘ میں ایک یادگار کردار ادا کیا۔ ان کی آخری فلم ’اکیس‘ اب ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوگی۔ یہ شری رام راگھون کی فلم ہے جس میں امیتابھ بچن کے نواسے مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔
دھرمیندر اور ہیما مالنی کی پریم کہانی پر پھر کسی مضمون میں بات کریں گے۔ ذکر ہو جائے دھرمیندر کی پہلی محبت کا۔ اس لڑکی کا نام حمیدہ تھا مگر سال 1947 میں تقسیمِ ہند کی وجہ سے اُن کی یہ پریم کہانی المیہ انجام سے دوچار ہوئی۔
انہوں نے کچھ عرصہ قبل سلمان خان کے معروف شو ’دس کا دم‘ میں بات کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ ’حمیدہ ان کی سکول ٹیچر کی بیٹی تھی اور جماعت میں ان سے دو کلاس آگے پڑھتی تھی۔ ان دونوں کے درمیان یہ وابستگی اس وقت شروع ہوئی جب وہ چھٹی جماعت میں تھے اور حمیدہ آٹھویں جماعت میں۔‘
دھرمیندر کے مطابق یہ ایک بے حد معصوم اور پاکیزہ محبت تھی جو کبھی کسی حد سے آگے نہیں بڑھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’میں دل ہی دل میں اُس سے محبت کرتا رہا۔ اس نے تو کبھی جانا تک نہیں۔‘
اداکار نے بتایا کہ ’تقسیم ہند کے بعد حمیدہ پاکستان چلی گئی اور وہ اسے پھر کبھی نہیں دیکھ  سکے۔‘

دھرمیندر اور ہیما مالنی کی دو بیٹیاں ہیں (فوٹو: انسٹاگرام)

انہوں نے پنجاب دھرتی سے اپنی وابستگی کا کچھ ان الفاظ میں کیا تھا کہ ’اس زمانے کی یادیں آج بھی انہیں اپنے پنجاب کے اُن معصوم دنوں کی یاد دلاتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ ان کی ابتدائی زندگی کا نہایت معصوم اور ناقابلِ فراموش حصہ تھا، جس میں جذبات بہت سچے اور بے لوث تھے۔‘
دھرمیندر کو فلم انڈسٹری سے ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ ان کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے مگر اس کے باوجود جب بھی بالی وڈ کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان کا شمار انڈسٹری کے کامیاب اور وجیہہ ترین اداکاروں میں کیا جائے گا۔

شیئر: