Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یورپی یونین کے ممالک کا نئے پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی واپسی کی پالیسی پر اتفاق

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان اقدامات کو ’غیرانسانی‘ قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
یورپی یونین کے ممالک نے پیر کو کئی اہم مجوزہ قوانین پر حتمی مؤقف طے کر لیا جن میں نئے پناہ گزین قوانین، محفوظ ممالک کی مشترکہ فہرست اور غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے لیے یورپی سطح پر پالیسی شامل ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کونسل اب یورپی پارلیمنٹ سے مذاکرات کرے گی تاکہ حتمی قانونی متن پر اتفاق ہو سکے۔ اگرچہ پارلیمنٹ نے ابھی اپنا مؤقف طے نہیں کیا، لیکن موجودہ مسودوں میں بنیادی نکات برقرار ہیں۔
اہم تبدیلیوں میں یہ شامل ہے کہ کوئی یورپی ملک پناہ کی درخواست مسترد کر سکتا ہے اگر درخواست دہندہ کسی ایسے ملک میں تحفظ حاصل کر سکتا تھا جسے یورپی یونین محفوظ سمجھتی ہے۔
محفوظ ممالک کی فہرست میں یورپی یونین کے امیدوار ممالک کے ساتھ بنگلہ دیش، انڈیا، مصر، مراکش، تیونس، کولمبیا اور کوسوو شامل ہوں گے۔ ڈنمارک اور دیگر ممالک نے زور دیا کہ پناہ گزینوں کی درخواستوں پر کارروائی محفوظ تیسرے ممالک میں کی جائے تاکہ خطرناک سفر کی ترغیب ختم ہو۔
یورپی ممالک نے 2026 کے لیے ’یکجہتی پول‘ پر بھی اتفاق کیا جس کے تحت وہ 21 ہزار افراد کی منتقلی کے لیے بحیرہ روم کے ممالک کی مدد 420 ملین یورو فنڈز یا دیگر اقدامات کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ نئے قوانین کے تحت واپسی نہ کرنے والے تارکین وطن کو جیل کی سزا ہو سکتی ہے اور ’ریٹرن ہبز‘ قائم کیے جائیں گے تاکہ ملک بدری کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان اقدامات کو ’غیرانسانی‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ قوانین حقوق کی پامالی ہیں جو مزید لوگوں کو غیریقینی اور قانونی خلا میں چھوڑ دیں گے۔
تنظیم نے یورپی یونین پر الزام لگایا کہ وہ کسی بھی قیمت پر ملک بدری، چھاپے، نگرانی اور حراست بڑھانے پر بضد ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدامات یورپی یونین کی ہجرت پالیسی کو مزید سخت اور انسانی حقوق کے لیے خطرناک بنا دیں گے۔
اس کے بعد اگر کوئی ملک پناہ گزینوں کو قبول نہیں کرتا تو مزید اقدانات کیے جا سکتے ہیں۔

 

شیئر: