عدالت نے حکم دیا کہ خاکروب کی آسامیوں کےا شتہار میں صرف کرسچن یا مسیحی کے بجائے ’شہری‘ لکھا جائے (فوٹو: اے ایف پی)
کون مائنس ہوگا کون نہیں؟ کیسے ہوگا؟ کب ہوگا؟ کیوں ہوگا؟ اور پھر کیا ہوگا؟ کس سیاسی جماعت پر پابندی لگانی ہے؟ کس پر نہیں؟ اڈیالہ کے مکین کو اب کہاں منتقل کرنا ہے؟ فریقین دو قدم پیچھے ہٹ کر ڈائیلاگ کو جگہ دیں گے یا مسلسل محاذ آرائی بالآخر معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جائے گی؟
اٹھائیسویں ترمیم کب آئے گی؟ بلاول نئے صوبوں کے حق میں کیوں نہیں؟ پیپلز پارٹی اب کس مشن پر ہے؟ سیاسی استحکام کیسے نصیب ہوگا؟ ملکی معیشت کب اٹھان پکڑے گی؟ دہشتگردی کا عفریت کیسے دم توڑے گا؟ دہلی سے کابل تک درپیش خطرات سے نمنٹنے کا فارمولا کیا ہے؟ عام شہری کب چین کی بانسری بجاتا نظام کے گُن گائے گا؟
ان گنت ایسے سوالات ہیں جو تقریباً ہر پاکستانی اور ہر صحافی کے ذہن میں صبح شام یوں دستک دیتے ہیں جیسے بن بلائے مہمان۔ یعنی چاہ کر بھی آپ ان سوالات سے درگزر نہیں فرما سکتے۔ چاہتے نہ چاہتے یہ مدعے آپ کا پیچھا کرتے ہیں، کھانے کی میز پر، احباب کے سنگ چائے پر، دفاتر میں، سیاسی و غیر سیاسی اکٹھ پر، الغرض یہ کہ ہر جا ہر موسم میں یہ سوال تواتر کے ساتھ زیر بحث رہتے ہیں۔
اب آپ ہی بتلائیں ان سوالات سے پیچھا چھڑوا کر ایک لکھاری کیسے اور کیونکر کسی اور موضوع پر قلم اٹھائے؟ گنجائش ہی باقی نہیں رہتی، لیکن سچی بات یہ ہے ان طوفانی سوالوں کے بیچوں بیچ بالآخر اس خاکسار کو ایک ایسی خبر دیکھنے پڑھنے اور سننے کو ملی کہ جی خوش ہوگیا۔
منگل کو ہمارے صحافی دوست اویس یوسفزئی نے دو تین انتہائی مختصر ٹویٹس کے ذریعے اطلاع دی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے، اور وہ یہ کہ خاکروب کی آسامیوں پر بھرتی کے لیے اشتہار میں صرف ’مسیحی‘ لکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ خاکروب کی آسامیوں کےا شتہار میں صرف کرسچن یا مسیحی کے بجائے ’شہری‘ لکھا جائے۔ فیصلے کے مطابق سیورج ورکرز کو زہریلی گیسوں اور جان لیوا ماحول میں بغیر حفاظتی انتطامات چھوڑ دینا سنگین غفلت ہے۔ سیورج وکررز مشینی پرزے نہیں۔ انہیں مکمل حفاظتی سامان اور سہولیات دی جائیں۔
عدالتی فیصلے میں ہدایت کی گئی کہ وزارات قانون و انصاف نئی قانون سازی یا موجودہ قوانین میں ترامیم کرے تاکہ سیورج ورکرز کے حقوق صحت حفاظت اور وقار کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ خطرناک حالات میں کام کرنے والے ورکرز کی انشورنس اور معاوضے کا نظام بنایا جائے۔
پانچ صفحات پر مشمتل فیصلہ پڑھا تو معلوم ہوا کہ پیٹیشن سینٹر فار رول آف لا اسلام آباد کی جانب سے بنام سرکار تھی۔ عدالت نے تشویش کے ساتھ نوٹ کیا کہ 1988 سے اب تک 77 سے زائد مسیحی کارکن گٹروں میں زہریلی گیسوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
میڈیکل ایکسپرٹس کے مطابق پاکستان کے سینیٹری ورکرز میں زیادہ تر ہیپاٹائٹس اے، ای بی اور سی کا شکار ہوتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
فیصلے کی بنیاد آئین میں درج برابری اور انصاف کی پاسداری کے آرٹیکلز پر مبنی ہے جس پر بدقسمتی سے کبھی عمل نہ ہوا۔ یا د پڑتا ہے کہ کہیں پڑھ رکھا تھا کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون و انصاف جوگندر ناتھ منڈل نے اقلیتوں کےلیے سرکاری ملازمتوں میں گیارہ فیصد کوٹا مختص کیا تھا، لیکن ہیچ آرزو مندی اس میں کمی ہوتی رہی اور باقی رہ جانے والی شرح پر بھی کبھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔
جو ہوا اس کے بعد سینیٹری ورکرز یا خاکروبوں کی حالت زار ہی دیکھ لیں جس کی بنیاد پر جسٹس منہاس نے مذکورہ تاریخی فیصلہ صادر فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ جج صاحب نے ریمارکس دیے کہ وزاراتیں اور محکمے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری تسلیم کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے احتساب سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا عوامی عہدے کا استعمال محض ڈیوٹی چوری تک محدود ہو گیا ہے؟ کیا آئین پاکتان تمام شہریوں کو یکساں تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا؟ اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا سیوریج ورکرز کی جانیں دوسرے شہریوں کی نسبت کم قیمتی ہیں؟
میڈیکل ایکسپرٹس کے مطابق پاکستان کے سینیٹری ورکرز میں زیادہ تر ہیپاٹائٹس اے، ای بی اور سی کا شکار ہوتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ جلدی امراض اور انفیکشن کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کا لاحق ہونا بھی معمول بن جاتا ہے۔
ایمینسٹی انٹرنیشنل کی رواں برس جاری کردہ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں چوالیس فیصد سینیٹری ورکرز کو امتیازی تعصب کا سامنا ان مسائل کے علاوہ بھی ہے۔ ناکافی سہولیات اور صحت کو درپیش ان گنت چیلنجز کو تصور میں لاتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ آخر ہمارے یہ بھائی کیوں اس قدر جان لیوا شعبے میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے تصور ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔
پیٹر جیکب کے مطابق مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شعبے سے وابستہ ملازمین کو کم سے کم اجرت بھی نہیں دی جاتی (فوٹو: اے ایف پی)
بہرحال اس حوصلہ افزا خبر پر چرچا جاری تھی کہ پیٹر جیکب صاحب سے گفتگو کا اتفاق ہوا، یہ سینٹر فار سوشل جسٹس کے ڈائریکٹر ہیں، جسٹس منہاس کے تاریخی فیصلے پر اظہار اطمنیان کرتے ہوئے پیٹر جیکب نے تشویش میں مبتلا کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایسا ہی ایک فیصلہ سندھ ہائیکورٹ سے بھی آیا تھا، مسئلہ اب فیصلہ نہیں، فیصلوں پر عمل درآمد ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شعبے سے وابستہ ملازمین کو کم سے کم اجرت بھی نہیں دی جاتی۔ اس کا حل کہاں تلاش کریں؟ یہ سنتے ہی خاکسار کو چپ سی لگ گئی اور چاہتے نہ چاہتے ہوئے دوبارہ سوچ وہیں جا پہنچی جہاں سے تحریر کا آغاز ہوا تھا۔