Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیتن یاہو کی اصل مشکل کچھ اور، اجمل جامی کا کالم

یہاں اپنے اتحادیوں کے ساتھ نیتن یاہو کا عہد ہے کہ وہ غزہ کو بھی اسرائیل میں ضم کرے گا (فوٹو: اے ایف پی)
ایک ایسے وقت میں جب ہماری توجہ ٹرمپ کے بیس نکات پر تھی، قطر اور حما س کے تحفظات کھل کر سامنے آنے لگے۔ پاکستان کی پوزیشن میں بھی وضاحت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ 
ٹرمپ کو البتہ جلدی ہے۔ اگلے برس وہاں وسط مدتی انتخابات ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے پہلے وہ مشرق وسطی کا امن منصوبہ کسی نہ کسی طور عملی صورت میں ڈھالنے میں کامیاب ہوں۔ 
اسی بیچ لوسی ویلمیز کا نیتن یاہو پر ایک طویل مضمون نظر سے گزرا۔ لوسی بی بی سی کے لئے لکھتی ہیں۔ انہوں نے نیتن یاہو سرکار کے اندرونی مسائل پر تفصیل رقم کی ہے۔ یہیں سے اسرائیلی اخبارات کو مزید کھنگالنے کا موقع ملا۔ معلوم ہوا کہ یہ شخص عبرانی زبان میں مخاطب ہوتے ہی ایسے وعدے کرتا ہے جن کا ذکر ٹرمپ کے ساتھ ہوئی گفتگو میں نہیں تھا۔ یعنی اسرائیل کے لیے اس مدعے میں مکمل جیت کا خواب۔ اتحادیوں یعنی اتمار بن اور بیزالیل جیسے رہنماؤں کی انتہائی قدامت پسند جماعتوں کی حمایت بھی اس کے لیے غزہ اور فلسطین کے سلسلے میں بھیانک منصوبوں کی تکمیل سے مشروط ہے۔
یہاں اپنے اتحادیوں کے ساتھ نیتن یاہو کا عہد ہے کہ وہ غزہ کو بھی اسرائیل میں ضم کرے گا۔ فلسطینی بے گناہوں کو بے دخل کر کے اپنی آبادیاں بسائے گا۔ علاقے میں فلسطینی اتھارٹی کی رہی سہی ساکھ کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ان تمام وعدوں پر عمل کرے گا جو اتحادیوں کے ساتھ کر رکھے ہیں۔ 
یہ وعدے دراصل اتحادیوں کو حکومت کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے اس شخص کے بنیادی ہتھیار ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل میں اگلے برس انتخابات ہیں۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق ان انتخابات میں نیتین یاہو کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔ ایسی صورت سے بچنے کے لیے اس شخص کے عزائم کو بھانپنا اب زیادہ مشکل دکھائی نہیں دیتا۔ 

اسرائیلی کابینہ نے نیتن یاہو کو صرف اسرائیلی یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی کا مینڈیٹ دیا ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

 بیس نکات پر ٹرمپ کے ساتھ ہوئی پریس کانفرنس کے بعد واپسی ہوئی تو نیتن یاہو نے اتحادیوں سمیت اپنے شہریوں کو پھر سے ایسے ہی خواب دکھائے اور وہاں ہوئی گفتگو کے برعکس یو ٹرن لیتے ہوئے اسرائیلی فوجیں ہٹانے کی نفی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے پلان کو یکسر مسترد کر دیا۔ بنیادی وجہ وہی، یعنی پارلیمان میں محدود اکثریت اور گرتی ساکھ اور اقتدار کو سہارا دینا۔ 
کچھ تجزیوں نگاروں کے ہاں اگر نیتن یاہو ٹرمپ کا پلان قبول کرتا ہے تو اسے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں اسے سزا ہوسکتی کیونکہ یہ کرپشن کے مقدمات میں سزا یافتہ ہے۔ وزارت عظمیٰ کی وجہ سے اس معاملے میں یہ رعایت سے مستفید ہو رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی صدر اسحقٰ ہرزوگ نے چند روز پہلے اسرائیلی ریڈیو پر ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک معنی خیز بیان دیا۔ اسحقٰ ہرزوگ نے کہا کہ وہ غور کر رہے ہیں کہ نیتن یاہو کو کرپشن کیسز میں ہوئی سزاوں کو معاف کردیں۔ 
مقامی سطح پر جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر بھی رضا مندی ظاہر کر کے آیا ہے تو اس نے بنا لگی لپٹی کہا کہ ’ابسولوٹلی ناٹ۔ یہ بات تو اس معاہدے میں بھی شامل نہیں جس بارے ٹرمپ سے بات کر کے آیا ہوں۔ ‘یہی نہیں بلکہ مزید بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’ہم طاقت کے بل بوتے پر فلسطینی ریاست کے قیام کی ہر کوشش کو ناکام بنائیں گے۔‘

کچھ تجزیوں نگاروں کے ہاں اگر نیتن یاہو ٹرمپ کا پلان قبول کرتا ہے تو اسے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

نیتن یاہو کے عزائم کو بھاپننے کی کوشش میں مزید علم ہوا کہ یہ شخص اتحادیوں کے ساتھ ساتھ کابینہ کے سامنے بھی کچھ اور ہی منجن بیچ کر ٹرمپ تک پہنچا ہے۔ اسرائیلی کابینہ نے نیتن یاہو کو صرف اسرائیلی یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی کا مینڈیٹ دیا ہوا ہے۔ کابینہ نے مشروط کر رکھا ہے کہ صرف یرغمالیوں کی رہائی کے سلسلے میں ہونے والے معاہدے پر ہی اسے ووٹ ملے گا بصورت دیگر نہیں۔ اپنی ہی کابینہ کے سامنے نتین یاہو کے اس ایک نکتے کے علاوہ کوئی دوسرا پلان زیر غور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے مجوزہ بیس نکات میں اکثر کے ہاں اس کی مداخلت کےنتیجے میں غیر معینہ اور غیر واضح شرائط رکھی گئی ہیں۔ مثلاً منصوبے پر عمل ہوا تو غزہ سے اسرائیلی فوجوں کا انخلا کب ہوگا؟ اس شق میں اس بابت سرے سے ہی کوئی واضح لائحہ موجود نہیں۔ لکھا گیا ہے کہ غزہ میں عسکریت کا خاتمہ ہوا تو اسرائیلی فوجیں انخلا کریں گی اور وہ بھی مرحلہ وار۔ یہ کون طے کرے گا کہ معاہدے کی یہ شق من و عن پوری ہوچکی اور اب اسرائیلی فوجیں انخلا کریں گے؟ اس سوال کا جواب موجود نہیں۔ 
اندرونی سیاست اور بیرونی دباؤ کو دیکھا جائے تو یہ کہنا آسان ہوگا کہ نیتن یاہو کسی طور بھی منصوبے پر عمل کرے تو حکومت ہاتھ سے جائے گی اتحادی روٹھ جائیں گے، نہ کرے تو ٹرمپ ناراض ہوتا ہے۔ دونوں صورتیں اس شخص کو اپنے عزائم میں کسی نئے بھیانک منصوبے کا پتہ دیتی ہیں۔ 
 

شیئر: