ایک ایسے وقت میں جب ہماری توجہ ٹرمپ کے بیس نکات پر تھی، قطر اور حما س کے تحفظات کھل کر سامنے آنے لگے۔ پاکستان کی پوزیشن میں بھی وضاحت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
ٹرمپ کو البتہ جلدی ہے۔ اگلے برس وہاں وسط مدتی انتخابات ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے پہلے وہ مشرق وسطی کا امن منصوبہ کسی نہ کسی طور عملی صورت میں ڈھالنے میں کامیاب ہوں۔
مزید پڑھیں
-
یہ خواجہ آصف کو کیا ہوا؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 894158
-
سیلاب، طیب بلوچ، نیپال اور شاہراہِ بھٹو، اجمل جامی کا کالمNode ID: 894475
-
’بکھری ہے میری داستاں‘: اظہار کا حق، اجمل جامی کا کالمNode ID: 895018
اسی بیچ لوسی ویلمیز کا نیتن یاہو پر ایک طویل مضمون نظر سے گزرا۔ لوسی بی بی سی کے لئے لکھتی ہیں۔ انہوں نے نیتن یاہو سرکار کے اندرونی مسائل پر تفصیل رقم کی ہے۔ یہیں سے اسرائیلی اخبارات کو مزید کھنگالنے کا موقع ملا۔ معلوم ہوا کہ یہ شخص عبرانی زبان میں مخاطب ہوتے ہی ایسے وعدے کرتا ہے جن کا ذکر ٹرمپ کے ساتھ ہوئی گفتگو میں نہیں تھا۔ یعنی اسرائیل کے لیے اس مدعے میں مکمل جیت کا خواب۔ اتحادیوں یعنی اتمار بن اور بیزالیل جیسے رہنماؤں کی انتہائی قدامت پسند جماعتوں کی حمایت بھی اس کے لیے غزہ اور فلسطین کے سلسلے میں بھیانک منصوبوں کی تکمیل سے مشروط ہے۔
یہاں اپنے اتحادیوں کے ساتھ نیتن یاہو کا عہد ہے کہ وہ غزہ کو بھی اسرائیل میں ضم کرے گا۔ فلسطینی بے گناہوں کو بے دخل کر کے اپنی آبادیاں بسائے گا۔ علاقے میں فلسطینی اتھارٹی کی رہی سہی ساکھ کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ان تمام وعدوں پر عمل کرے گا جو اتحادیوں کے ساتھ کر رکھے ہیں۔
یہ وعدے دراصل اتحادیوں کو حکومت کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے اس شخص کے بنیادی ہتھیار ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل میں اگلے برس انتخابات ہیں۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق ان انتخابات میں نیتین یاہو کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔ ایسی صورت سے بچنے کے لیے اس شخص کے عزائم کو بھانپنا اب زیادہ مشکل دکھائی نہیں دیتا۔

بیس نکات پر ٹرمپ کے ساتھ ہوئی پریس کانفرنس کے بعد واپسی ہوئی تو نیتن یاہو نے اتحادیوں سمیت اپنے شہریوں کو پھر سے ایسے ہی خواب دکھائے اور وہاں ہوئی گفتگو کے برعکس یو ٹرن لیتے ہوئے اسرائیلی فوجیں ہٹانے کی نفی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے پلان کو یکسر مسترد کر دیا۔ بنیادی وجہ وہی، یعنی پارلیمان میں محدود اکثریت اور گرتی ساکھ اور اقتدار کو سہارا دینا۔
کچھ تجزیوں نگاروں کے ہاں اگر نیتن یاہو ٹرمپ کا پلان قبول کرتا ہے تو اسے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں اسے سزا ہوسکتی کیونکہ یہ کرپشن کے مقدمات میں سزا یافتہ ہے۔ وزارت عظمیٰ کی وجہ سے اس معاملے میں یہ رعایت سے مستفید ہو رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی صدر اسحقٰ ہرزوگ نے چند روز پہلے اسرائیلی ریڈیو پر ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک معنی خیز بیان دیا۔ اسحقٰ ہرزوگ نے کہا کہ وہ غور کر رہے ہیں کہ نیتن یاہو کو کرپشن کیسز میں ہوئی سزاوں کو معاف کردیں۔
مقامی سطح پر جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر بھی رضا مندی ظاہر کر کے آیا ہے تو اس نے بنا لگی لپٹی کہا کہ ’ابسولوٹلی ناٹ۔ یہ بات تو اس معاہدے میں بھی شامل نہیں جس بارے ٹرمپ سے بات کر کے آیا ہوں۔ ‘یہی نہیں بلکہ مزید بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’ہم طاقت کے بل بوتے پر فلسطینی ریاست کے قیام کی ہر کوشش کو ناکام بنائیں گے۔‘
