Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سٹامپ پیپر فراڈ، اسلام آباد میں کم مالیت کے سٹامپ مارکیٹ سے ’غائب‘

اسلام آباد میں 50، 100 اور 200 روپے کی مالیت والے سٹامپ پیپر بیشتر دکانوں پر موجود نہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)
12  دسمبر کی صبح بارہ کہو اسلام آباد کے رہائشی ذکر الٰہی اپنے گھر سے موٹر سائیکل کی فروخت کے لیے قریبی مارکیٹ میں سٹامپ پیپر لینے نکلے۔
وہ اٹھال چوک، مری روڈ، بارہ کہو میں واقع سٹامپ کی دکان پہنچے، لیکن دکان بند ملی۔ انہیں بتایا گیا کہ آج کل سٹامپ دستیاب نہیں اور انہیں کل تک انتظار کرنا پڑے گا۔
’چونکہ مجھے موٹر سائیکل کا لین دین فوری مکمل کرنا تھا، اس لیے میں اسلام آباد کے جی 6 مرکز پہنچا، جہاں لائن میں طویل انتظار کے بعد بالآخر مجھے سٹامپ پیپر مل گیا۔ یہ کم مالیت والا سٹامپ تو نہیں تھا، لیکن میں نے اسی پر اپنا کام مکمل کیا۔‘
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ان دنوں سٹامپ پیپر کی قلت دیکھنے میں آ رہی ہے، جس کے باعث شہریوں کے روزمرہ معمولات متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ قلت بنیادی طور پر فیڈرل ٹریژری آفس (محکمہ مال) میں سامنے آنے والے سٹامپ پیپر فراڈ اور مالی بے ضابطگیوں کے باعث پیدا ہوئی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق محکمہ مال کے ملازمین اور سٹامپ فروشوں نے ملی بھگت سے جعلی یا غیر قانونی سٹامپ پیپر جاری کیے، لیکن ان کی فیس قومی خزانے میں جمع نہیں کروائی گئی۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا ہے، جس میں فیڈرل ٹریژری آفس کے ملازمین اور سٹامپ فروشوں سمیت 71 افراد نامزد ہیں، جبکہ 20 ملزمان کو گرفتار کر کے ان سے تفتیش جاری ہے۔
اس صورتحال کے بعد اسلام آباد میں درجنوں سٹامپ فروشوں کے لائسنس منسوخ کیے گئے ہیں، جن پر شبہ تھا یا جو براہِ راست اس سکینڈل میں ملوث پائے گئے۔
اس پیش رفت کے بعد اسلام آباد میں سٹامپ پیپر کی دستیابی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں کے سٹامپ فروش اس وقت سٹاک کم ہونے کی شکایت کر رہے ہیں، جبکہ بعض دکانیں سٹاک ختم ہونے کے باعث عارضی طور پر بند بھی ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق محکمہ مال کے ملازمین اور سٹامپ فروشوں نے ملی بھگت سے جعلی یا غیر قانونی سٹامپ پیپر جاری کیے (فوٹو: فیس بک)

اس وقت اسلام آباد میں زیادہ تر 300، 400 اور 500 روپے مالیت کے سٹامپ پیپر دستیاب ہیں، جبکہ 50، 100 اور 200 روپے کی مالیت والے سٹامپ پیپر بیشتر دکانوں پر موجود نہیں۔
اسلام آباد کی میلوڈی مارکیٹ میں سٹامپ فروشی سے وابستہ تاجر وسیم اکرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ کئی برسوں سے یہ کاروبار کر رہے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں سٹامپ کی قلت کا غیر معمولی مسئلہ دیکھا ہے۔
ان کے مطابق 300، 400 اور 500 روپے مالیت کے سٹامپ تو دستیاب ہیں، لیکن کم مالیت والے سٹامپ مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں اور مارکیٹ کی دیگر تین دکانیں بھی سٹامپ نہ ہونے کے باعث عارضی طور پر بند پڑی ہیں۔
اسلام آباد کے جی 6 مرکز میں سٹامپ فروش کی دکان پر آئے تاجر مجتبیٰ عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ کم مالیت والا سٹامپ خریدنے آئے تھے، مگر دکان پر صرف 500 روپے مالیت کا سٹامپ دستیاب تھا اور دیگر کم قیمت والے سٹامپ موجود نہیں تھے۔
کئی دہائیوں سے سٹامپ فروخت کرنے والے وسیم اکرم نے کہا کہ حکومت کو پنجاب کی طرح اسلام آباد میں بھی ای۔ سٹامپ کا نظام متعارف کرانا چاہیے۔ ان کے مطابق اس سے نہ صرف شفافیت میں اضافہ ہوگا بلکہ شہریوں کو اس طرح کے بحرانوں کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

سٹامپ پیپر کی ضرورت کہاں پیش آتی ہے؟

پاکستان میں سٹامپ پیپر ایک اہم قانونی دستاویز ہے، جو شہریوں کی ذاتی ضرورت کے ساتھ ساتھ مختلف محکموں میں بھی روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہوتی ہے۔

وسیم اکرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ کئی برسوں سے سٹامپ کا کاروبار کر رہے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں سٹامپ کی قلت کا غیر معمولی مسئلہ دیکھا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اگر آپ موٹر سائیکل بیچنا چاہتے ہیں، مکان کے کرایہ نامے کا معاہدہ کرنا ہو یا کسی کے ساتھ کوئی قانونی معاہدہ طے کرنا ہو، تو ہر صورت میں سٹامپ پیپر ضروری ہوتا ہے۔
یہ دستاویز خرید و فروخت، شراکت داری یا کاروباری معاہدوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، اور اس پر کیا گیا معاہدہ عدالت میں قانونی طور پر قابل قبول ہوتا ہے۔
اسی طرح سٹامپ پیپر ادائیگی کے معاہدوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، چاہے وہ ذاتی ہوں یا کاروباری، تاکہ ادائیگی قانونی طور پر لازم قرار پائے اور عدالت میں اس کا تحفظ موجود ہو۔
مزید برآں، سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں پیش کیے جانے والے حلف نامے، شناخت، آمدنی یا دیگر قانونی حقائق کی تصدیق کے لیے بھی سٹامپ پیپر استعمال ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے شفافیت برقرار رکھنے اور بے ضابطگیوں سے بچاؤ کے لیے ای-سٹامپ سسٹم جلد از جلد نافذ کرے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اس کے علاوہ وکالت نامے، کاروباری یا پراپرٹی کے معاہدے، عدالتی دستاویزات، حلف نامے اور مالی ریکارڈ وغیرہ کے لیے بھی سٹامپ پیپر روزانہ استعمال ہوتا ہے۔

ای-سٹامپ پیپر کا استعمال کہاں ہو رہا ہے؟

پاکستان کے مختلف صوبوں، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا، میں ای-سٹامپ پیپر متعارف کرائے جا چکے ہیں اور روزمرہ کاموں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ تاہم اسلام آباد میں اس کا نفاذ اب بھی تیاری اور ٹیسٹنگ کے مراحل میں ہے اور مکمل نفاذ پر کام جاری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے شفافیت برقرار رکھنے اور بے ضابطگیوں سے بچاؤ کے لیے ایسٹامپ سسٹم جلد از جلد نافذ کرے، تاکہ شہریوں کو سٹامپ پیپر کی آسان دستیابی کے ساتھ قانونی شفافیت بھی یقینی بنائی جا سکے۔

شیئر: