سڈنی فائرنگ: اسلحہ قوانین مزید سخت کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس
سڈنی فائرنگ: اسلحہ قوانین مزید سخت کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس
پیر 22 دسمبر 2025 6:31
14 دسمبر کو ہونے والے واقعے میں 15 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے (فوٹو: روئٹرز)
آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے بونڈائی بیچ پر فائرنگ کے واقعے کے بعد اسلحہ رکھنے سے متعلق مجوزہ قوانین پر ووٹنگ کے لیے آج پھر ریاستی پارلیمان کا اجلاس ہو رہا ہے، جس میں آتشیں اسلحہ رکھنے پر پابندیاں لگائی جائیں گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیو ساؤتھ ویلز کے پارلیمان میں ہونے والے اجلاس میں دہشت گردی سے متعلق اشیا کی نمائش پر پابندی اور مظاہروں کو محدود کرنے کے اقدامات سے متعلق نکات بھی شامل ہوں گے۔
آتشیں اسلحے کے بارے میں قانونی سازی پر بحث کے لیے بلایا گیا اجلاس دو روز جاری رہے گا اور نئے اقدامات کے تحت ایک شخص کے لیے اسلحہ رکھنے کی تعداد چار تک ہوگی جبکہ کسانوں یا دوسرے مخصوص گروپس کے لیے یہ تعداد 10 تک محدود ہوگی۔
آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے پولیس کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگر پولیس کے سامنے معقول جواز پیدا کیا جائے تو فی الوقت ملک میں آتشیں اسلحے کی ملکیت کی کوئی حد نہیں ہے اور اس وقت ریاست میں ایسے 50 سے زائد افراد موجود ہیں جو 100 سے زیادہ ہتھیار رکھتے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ 14 دسمبر کو بونڈائی میں فائرنگ کے وقت پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے 50 برس کے شخص ساجد اکرم کے پاس چھ آتشتیں ہتھیار تھے جبکہ اس کے بیٹے نوید اکرم پر قتل اور دہشت گردی سمیت 59 قسم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
نوید اکرم کو احمد الاحمد نام کے ایک شخص نے فائرنگ کرتے ہوئے قابو کر لیا تھا اور بندوق چھین لی تھی۔
اس واقعے میں 16 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے، یہ حملہ اس وقت کیا گیا تھا جب بونڈائی بیچ پر یہودیوں کی ایک خوشی کی تقریب جاری تھی۔
اس حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور اسلحے کی ملکیت سے متعلق سخت قوانین کے مطالبات شروع ہوئے جبکہ اینٹی سیمیٹزم کو روکنے کے لیے کوششیں تیز کرنے کے مطالبات بھی اجاگر ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ کرنے والے شخص کو ہلاک جبکہ بیٹے کو گرفتار کر لیا گیا تھا (فوٹو: سکرین گریب)
مجوزہ قانون سازی سے پولیس کو احتجاج یا ریلیوں کے دوران چہروں سے نقاب اتارنے کے مزید اختیارات بھی ملیں گے۔ ریاست نے ’گلوبلائز دی انتفاضہ‘ نعرے پر پابندی لگانے کا بھی ارادہ کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس سے کمیونٹی کو تشدد کی حوصلہ افزائی کی تحریک ملتی ہے۔
اتوار کو یہودی رہنماؤں کی جانب سے ایک شاہی کمیشن کا مطالبہ کیا گیا تھا جو کہ آسٹریلوی حکومت کا سب سے طاقتور پلیٹ فارم ہے جو تفتیش کے لیے بنایا جاتا ہے۔
ان کا مطالبہ تھا کہ بونڈائی واقعے کی تحقیقات کے لیے بھی ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے۔
حزب اختلاف کی لبرل پارٹی کی رہنما سوسن نے اس مطالبے کی حمایت کی اور ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے وزیراعظم انتھونی البانیز سے ملاقات کے لیے رابطہ کیا ہے تاکہ کمیشن کے حوالے سے نکات کا جائزہ لیا جا سکے۔
وزیراعظم انتھونی البانیز کی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور مخالفین کی جانب سے ان کی انتظامیہ پر اینٹی سیمیٹزم روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب انتھونی البانیز اور ان کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’وہ مسلسل اینٹی سیمیٹزم کی مذمت کرتی رہی ہے اور پچھلے دو برس کے دوران نفرت انگیز تقاریر کے خلاف ہونے والی قانون سازی کے حوالے بھی دیے ہیں۔‘
انتظامیہ کی جانب سے یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ’رواں برس کے آغاز میں سڈنی اور میلبورن میں سام دشمن حملوں کا الزام تہران پر لگاتے ہوئے ایران کے سفیر کو ملک بدر کیا تھا۔‘