Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’شام کا سر فخر سے بلند کیا‘، احمد الاحمد کی بہادری پر خاندان والے بھی خوش

آسٹریلیا کی تاریخ میں فائرنگ کے بدترین واقعے میں اچانک کیمروں کے سامنے نمودار ہونے اور حملہ آور سے بندوق چھیننے کے مناظر جب ٹی وی پر چلے تو شام کی ایک دکان میں بیٹھے کچھ افراد نے یہ شناسا چہرہ پہچان لیا اور خیال ظاہر کیا کہ یہ شاید احمد الاحمد ہیں کیونکہ وہ بھی سڈنی میں ہی تھے۔
یہ خیال اس وقت درست ثابت ہوا جب میڈیا نے ہسپتال میں بیڈ پر پڑے ان کی تصویریں جاری کیں اور وزیراعظم انتھونی البانیز نے ان کو ہیرو قرار دیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے احمد الاحمد کے ان رشتہ داروں سے بات کی ہے جو اس وقت شام کی دکان میں بیٹھے تھے۔
43 سالہ احمد الاحمد کا تعلق شام کے شمال مغربی صوبے ادلب سے ہے اور وہ تقریباً 20 سال قبل آسٹریلیا گئے تھے۔
اتوار کو حملہ آور سے بندوق چھیننے کی کوشش میں وہ زخمی ہوئے تھے۔
ان کے چچا محمد الاحمد نے سب سے پہلی بار انہیں آن لائن گردش کرتی ویڈیو میں دیکھ کر پہچانا۔
انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ ’میں نے ان کے والد کو فون کیا تو وہ بھی ویڈیو دیکھ چکے تھے اور انہوں نے کہا کہ ہاں وہ احمد ہی ہیں اور ہم کو ان پر فخر ہے بلکہ پورے شام کو ان پر فخر ہے۔‘
نیرب کے علاقے میں رہنے والے ان کے خاندان کے دوسرے افراد بھی احمد الاحمد کے کارنامے کو سراہ رہے ہیں، یہ علاقہ 14 برس تک خانہ جنگی کا شکار رہا اور بشارالاسد کے نکلنے پر ختم ہوا۔

وزیراعظم انتھونی البانیز نے احمد الاحمد کی عیادت کی اور ان کو ہیرو قرار دیا (فوٹو: اے پی)

ان کے چچا کا کہنا تھا کہ ’احمد 2006 میں الیپو یونیورسٹی سے اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد آسٹریلیا گئے تھے اور اس کے بعد سے واپس نہیں آئے۔‘
ان کے مطابق وہ جب بہت چھوٹے تھے اس وقت بھی بہت بہادر اور خوش مزاج تھے۔
’’وہ یہ جانے بغیر کہ نشانہ بننے والے لوگ کون ہیں، ان کا مذہب کیا ہے، وہ مسلمان ہیں، مسیحی یا یہودی اور ان کو بچانے کے لیے میدان میں کود گئے۔‘
آسٹریلیا کی شہریت رکھنے والے احمد الاحمد کی دو بیٹیاں ہیں، وہ اس وقت سڈنی کے ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
ان کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے اور ان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔

شام میں احمد الاحمد کا گھر بمباری کی وجہ سے کھنڈر کا منظر پیش کرتا ہے (فوٹو: روئٹرز)

ان کے لیے خصوصی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں اب تک 15 لاکھ ڈالر جمع ہو چکے ہیں۔
شام میں ان کا دو منزلہ گھر کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے، اس میں کاٹھ کباڑ پڑا ہے اور دیواروں پر شیلنگ کے نشانات ہیں۔
ان کے کزن جن کا نام بھی محمد الاحمد ہے، نے روئٹرز کے نمائندے کو ان کا گھر دکھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ احمد کے والد کا گھر ہے، یہ جنگ کے دوران تباہ ہو چکا ہے اس پر بہت بمباری ہوئی۔‘
انہوں نے احمد الاحمد کے اقدام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کی وجہ یہ بھی کہ انہوں نے ان بے گناہ لوگوں کو بچایا جنہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔‘
ان کے مطابق ’وہ دنیا کے سامنے یہ ثابت کر دیں گے کہ مسلمان جنگ کرنے والے نہیں بلکہ امن پسند ہیں۔‘

شیئر: