Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہاولپور: سگریٹ نہ لانے پر بیٹی کو گلا دبا کر قتل کرنے والی ماں گرفتار

نبیلہ نے سگریٹ پینے کی عادت نہیں چھوڑی جس کےبعد اس معاملے پر گھریلو ناچاقی شروع ہوئی (فوٹو: پکسابے)
’میں اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر ہسپتال لے کر پہنچا۔ جب اس کو ایمرجنسی میں لٹایا تو ڈاکٹروں نے دیکھتے ہی کہا کہ اس کو تو مرے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے۔ اس کو کہاں اٹھا کر بھاگ رہے ہو اور ساتھ ہی انہوں نے بتایا اس کو تو گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے۔ یا اس نے خود کشی کی ہے یا آپ لوگوں نے اسے مارا ہے۔‘
’جب میں نے یہ سنا تو میں ڈاکٹروں کو کہا کہ اس کو مارنے والی اس کی یہ سگی ماں ہے جو ساتھ ہی تھی، پولیس کو بلائیں۔ پھر میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے گرفتار کروایا۔‘
یہ کہانی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے بہاولپور میں منڈی یزمان کی ہے۔
قتل ہونے والی 12 سالہ عائشہ کے والد عبدالستار نے اس کہانی کی مزید پرتیں کھولتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے نبیلہ نامی خاتون سے کوئی 15 سال پہلے شادی کی تھی اس سے چھ بچے ہیں۔ جب میں نے شادی کی تو اس وقت وہ شادی سے پہلے ہی حاملہ تھی۔ لیکن میں نے قبول کی، میری بھی پہلی شادی ناکام ہوئی تھی۔ اس لیے میں نے اس بات پر خاموشی اختیار رکھی۔ لیکن جلد ہی مجھے پتا چلا کہ میری بیوی کو سگریٹ کی لت ہے۔‘
جب سگریٹ کی عادت قابو سے باہر ہو گئی
عبدالستار بتاتے ہیں کہ شادی کے کچھ سالوں بعد انہیں پتا چلا کہ ان کی اہلیہ سگریٹ پیتی ہیں۔ ’یہ رات 11 بجے کا وقت تھا۔ میری اچانک آنکھ کھلی تو وہ بستر سے غائب تھی جب باہر دیکھا تو سیڑھیوں پر بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ ہم نے اس پر بات کی۔ اس نے کہا غلطی ہو گئی آئندہ کبھی نہیں کروں گی۔ لیکن وہ آئندہ کبھی نہیں آئی۔‘
نبیلہ نے سگریٹ پینے کی عادت نہیں چھوڑی جس کےبعد اس معاملے پر گھریلو ناچاقی شروع ہوئی۔ عبدالستار خود ’ستھرا پنجاب ‘ پروگرام میں ملازم ہیں اور ان کا زیادہ وقت باہر ہی گزرتا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت زیادہ خطرناک ہو گئی جب ملزمہ نے اپنے بچوں کو سگریٹ خریدنے پر لگا دیا۔ اور بات روزانہ ایک سگریٹ کے پیکٹ سے بڑھ گئی۔
تھانہ یزمان میں درج ایف آئی آر کے مطابق عبدالستار نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ ان کی اہلیہ ایک دن میں سگریٹ کے کئی پیکٹ پینا شروع ہو گئی تھیں اور انہوں نے اس عادت سے مجبور ہو کر  گھر کا سامان بھی بیچنا شروع کر دیا تھا۔

عبدالستار نے کہا کہ ’مجھے اس بیٹی پر بھروسہ نہیں تھا جسے وہ ساتھ لے کر آئی تھی۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

’پہلے راشن بیچنا شروع کیا۔ میں مہینے کا راشن لاتا اور وہ دس دن میں ختم ہو جاتا مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ برتن، اوزار حتیٰ کہ گھر میں پڑا ہتھوڑا تک بیچ دیا۔ اس کے بعد میری بس ہو گئی تو میں نے اس کے میکے والوں کو کہا کہ میں اس کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتا۔ تو انہوں نے منت سماجت کی اور کہا کہ وہ اس کے سگریٹ کا خرچہ خود اٹھا لیں گے جس کے بعد میں اسے واپس لے آیا۔ لیکن سب کچھ ویسا ہی رہا۔‘
عائشہ کیوں قتل ہوئی؟
اس مقدمے کے مدعی عبدالستار اس بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں جب اسے چھوڑنے گیا تو اس کے گھر والوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک شادی ہو رہی ہے تم اس کو دو ہفتے اور رکھو پھر ہم اس کو لے آئیں گے سب نے یہ مشورہ دیا کہ عائشہ کو سکول سے چھڑوا کر دو ہفتے گھر پر رکھو وہ اس کا خیال رکھے گی۔‘
’مجھے اس بیٹی پر بھروسہ نہیں تھا جسے وہ ساتھ لے کر آئی تھی۔ اور مجھے کئی کئی ڈبیوں والی بات بھی عائشہ نے بتائی ہوئی تھی۔ تو میں نے ان کی بات مان لی اور عائشہ کو سکول سے دو ہفتے کی چھٹی کروا دی کہ گھر کا سامان تو  کم از کم نہ بِکے۔ اور ساتھ میں نے روز کی ایک ڈبی سگریٹ کا وعدہ بھی کیا کہ وہ میں دیتا رہوں گا۔‘
اور پھر وہ دن آتا ہے جب جمعہ 19 دسمبر کو عبدالستار کو سہ پہر کو ایک پڑوسی کے فون سے کال آتی ہے کہ اس کے گھر میں کچھ ہو گیا ہے، بچے رو رہے ہیں فوری پہنچو۔ ستار اپنا کام ادھورا چھوڑ کر گھر پہنچے تو ان کی بیٹی بستر میں بے سدھ لیٹی تھی۔

پولیس نے ماں اور بیٹی کا ریمانڈ لے کر تفتیش شروع کر دی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے فوری طور پر اٹھایا اور ہسپتال کی طرف بھاگے۔ مزید تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے ’مجھے میری بیوی نے بتایا کہ عائشہ کو بخار ہو گیا تھا دوائی دی تو اس کو پیچش لگ گئے اور واش روم میں ہی اس کی حالت غیر ہو گئی ۔ لیکن میرے چھوٹے بچے نے بتایا کہ سب سے پہلے عاصمہ نے شور مچایا کہ باجی کو کیا ہوا ہے۔ پھر ماں نے شور کرنا شروع کر دیا۔ باقی بچے ڈر گئے۔ جب ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ گلا دبا کر مارا گیا ہے تو میں نے فوری شور مچا دیا کہ اس نے مارا ہے۔‘
تھانہ یزمان پولیس کے مطابق ملزمہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اس نے ہی اپنی بیٹی کو گلا دبا کر مارا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ اس بات سے سخت ناخوش تھی کہ وہ پہلے سگریٹ لانے میں اس مدد کرتی تھی اور ہر بات شیئر کرتی تھی لیکن اب وہ ہی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ اس لیے اس کو مارنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف عبدالستار نے نبیلہ کی پہلی بیٹی عاصمہ کو بھی ملزمہ نامزد کیا ہے جس کی عمت 15 سال ہے۔ پولیس نے دونوں کا ریمانڈ لے کر تفتیش شروع کر دی ہے۔

 

شیئر: