Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

#بول_کہ_لب_آزاد_ہیں_تیرے

        پاکستانی ٹویٹر صارفین کی جانب سے میڈیا ہاﺅسز اور صحافتی اداروں کی زبان بندی کےخلاف ہیش ٹیگ لانچ کیا گیا اور میڈیا کو ہر قسم کے اندرونی و بیرونی دباﺅسے آزاد کرنے کا مطالبہ کیا۔
        عبداللہ عسکری نے ٹویٹ کیا : ہمارے زیادہ تر میڈیا ہاﺅس ، صحافی اور جج صاحبان یہ سمجھتے ہیں کہ آزادی اظہار کا مطلب حکومت کےخلاف بولنا ہے۔ وہ غلط ہیں کیونکہ آزادی اظہار کا مطلب ڈکٹیٹرز اور بااثر افراد کےخلاف آواز اٹھانا ہے۔
        عبدالوحید مراد کا کہنا کہ ڈان اخبار کی تقسیم روکنے والے حوالداروں کو معلوم نہیں کہ دنیا 21ویں صدی میں ہے۔
         گل بخاری نے سوال کیا : میڈیا والو تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم تو ضیا کے زمانے میں بھی بلینک اسپیس کالم کی جگہ چلا دیتے تھے سنسر شپ پر احتجاج کے طور پر، اب اتنا بھی نہیں کرسکتے؟ آخر کیوں؟
        سمن ڈار نے ٹویٹ کیا کہ آزادی صحافت کے نعرے تو بہت لگتے ہیں مگر اس شعبے کو جیسے یرغمال بنایا گیا ہے، وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دھمکیاں ، حملے اور چینل بند کرنا۔ ایسی گونگی ، معذور اور لاچار صحافت کرنی ہے تو اس کام کو بند کردیں یا واقعی میں آزاد صحافت کے لئے جد وجہد کریں۔
        رمضان کلیس نے کہا کہاب میڈیا کو بولنا پڑے گا کہ کون اُن سے اِن کی آزادی سلب کر رہا ہے؟ کون زبانوں پر پابندی لگا رہا ہے، کون اخباروں میں کالم لگانے سے روک رہا ہے؟ بولو اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔
        شہیر جمال کا کہنا ہے کہ تاریخ کا یہ سب سے کڑا وقت پاکستان پر آچکا ہے۔ آجکل جو بھی حق بات کرتا ہے اس کے لب سی دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ حق نہ کہہ سکے۔ایسا کب تک چلے گا؟
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں