Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیکس ایمنسٹی سکیم اچھی یا بری, فائدہ کسے ہو گا؟

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے منگل کو بالآخر ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی منظوری دے دی ہے۔  گذشتہ دو بار یہ سکیم کابینہ اجلاسوں میں پیش ہو چکی ہے مگر اس پر  اتفاق رائے نہ ہوسکا تھا۔
 یہ سکیم وزیرخزانہ اور معاشی ٹیم کی تبدیلی کے بعد پیش کر دی گئی ہے۔ اس سکیم کے مقاصد کیا ہیں اور اس کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں اس بارے میں اردو نیوز نے معاشی امور کے ماہرین سے گفتگو کی۔
سینئر صحافی اور معاشی امور کے تجزیہ کار خلیق کیانی کے مطابق اس طرح کی ایمنسٹی سکیم کا مقصد ٹیکس آمدن میں کمی کو فوری طور پر پورا کرنا ہوتا ہے۔ ’اس سکیم کے ذریعے لوگوں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا کالا دھن تھوڑے سے پیسے دے کر سفید کروا لیں تاکہ حکومت کو فوری طور کچھ آمدنی حاصل ہو جائےـ‘
ٹیکس دھندگان کے منہ پر تمانچہ
خلیق کیانی کے مطابق اس وقت حکومت سالانہ ٹیکس آمدنی میں ساڑھے تین سو ارب کے خسارے میں ہے اور امید ہے کہ تازہ سکیم سے حکومت کو اس خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی سکیم باقاعدگی سے ٹیکس دینے والوں کے منہ پر تمانچہ ہوتی ہے کیوں کہ اس کے ذریعے ٹیکس چوروں کو رعایت دی جاتی ہے۔
سابق سیکرٹری خزانہ اور معاشی امور کے ماہر وقار مسعود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ ٹیکس ایمنسٹی سکیمز کے سخت مخالف رہے ہیں تاہم پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے بے نامی اثاثے رکھنے والوں کے خلاف حالیہ کارروائی کے بعد یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس طرح کی سکیم لائی جائے۔
 ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے بے نامی قانون نافذ کر کے بڑا اقدام اٹھایا ہے۔ اب لوگ اپنے ڈرائیور، باورچی اور رشتہ داروں کے نام پر اکاؤنٹس یا جائیداد نہیں رکھ سکتے کیوں کہ پکڑے جانے کی صورت میں سب ضبط ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں جب کہ پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے اور بزنس طبقہ خوف و ہراس کا شکار ہے حکومت کی طرف سے یہ سکیم لانچ کر کے ایک موقع دیا گیا ہے کہ وہ باضابطہ معیشت میں شامل ہو جائیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت کا 30 سے 40 فیصد سرمایہ بے ضابطہ سیکٹر میں ہے اور اسے باضابطہ بنانے کی اشد ضرورت ہے

’آخری موقع کے بعد کوئی اور موقع نہ دیں
وقار مسعود کے مطابق لوگوں کو حکومت کے اعلان پر اعتماد کا نہ ہونا اس طرح کی سکیمز کی ماضی میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔
سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی 2000 میں اس طرح کی ایک سکیم متعارف کروائی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو خوب مشتہر کرنا چاہیے کہ یہ اس طرح کا آخری موقع ہے تاکہ جو لوگ اس امید پر اثاثے ظاہر نہیں کرتے کہ کچھ عرصہ بعد پھر اس طرح کی سکیم آجائے گی وہ بھی جان جائیں کہ بعد میں ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔ حکومت واضح کر دے کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس طرح کی اور کوئی سکیم نہیں آئے گی۔
’ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا
معاشی امور کے سینئر تجزیہ کار خرم حسین سکیم کی کامیابی کے لیے زیادہ پر امید نہیں۔ ان کہنا تھا کہ انہوں نے گذشتہ دس سالوں میں دس ایسی ایمنسٹی سکیمیں دیکھی ہیں جو سب کی سب ناکام ہوئیں۔
’میرے خیال میں ایسی سکیموں کا چند لوگوں کو فائدہ ضرور ہو جاتا ہے مگر ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اس سکیم سے بھی ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘
خرم حسین کا کہنا تھا کہ ماضی میں لوگوں کی شرکت کے حوالے سے سب سے بڑی سکیم شاہد خاقان عباسی کے دور میں متعارف کروائی گئی مگر اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوا؟ کتنے پیسے خزانے میں آئے؟ کتنے غیر ملکی اثاثے ملک میں لائے گئے؟
خرم حسین کے مطابق ہر ایمنسٹی سکیم یہ کہہ کر لائی جاتی ہے کہ یہ پچھلی ساری سکیموں سے مختلف ہے مگر کچھ مختلف نہیں ہوتا۔
ان کے مطابق اس طرح کا کوئی بھی ایک نسخہ پراثر نہیں ہوتا بلکہ حکومت کو بڑے پیمانے پر ٹیکس اصلاحات لانی پڑیں گی جن کے تحت ٹیکس جمع کروانے والوں کو فوائد ملیں اور نہ جمع کرانے والوں کو جرمانے ہوں۔
 

شیئر: