Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تُسی کون؟ مہوش بھٹی کا کالم

حکومت کی خارجہ پالیسی اسی طرح ہے جیسے کسی بھُکانے کی ہوا نکلی ہو
مجھے یاد ہے جب میں چار، پانچ سال کی تھی تو روز رات نو بجے پی ٹی وی پر خبر نامہ لگا کرتا تھا جس کے بعد کشمیر کے بارے میں ایک خاص ویڈیو پیکج چلایا جاتا تھا۔ اس پیکج میں خوبصورت نغمہ چلا تھا ’میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن۔‘
یہ جملہ میرے دماغ میں ہمیشہ محفوظ رہا اور میں نے ہر بار یہی حسرت کی کہ شاید میری زندگی میں یہ دن واقعی آ جائے۔ یہ دن تو نہ آیا لیکن انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی خاص حیثیت ختم ہونے کا دن ضرور آ گیا۔
انڈیا نے آرٹیکل 370 کو ختم کیا جس کے تحت کشمیر کو حاصل کچھ  خاص حقوق ختم ہو گئے۔ لفظوں میں بتانا مشکل ہے لیکن کشمیریوں کی بے بسی برداشت نہیں ہوئی مجھ سے۔ اور میں نے ایک بار پھر اپنے ملک کی حکومت کی طرف دیکھا، کہ آخر اب ہم کیا کریں گے؟
جب میں اگلے دن جاگی، تو  حکومت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر سب سے پہلے پارلیمنٹ کی تصویر شیئر کی گئی، جس میں پاکستان کا جھنڈا بنایا گیا تھا، بھلا کس کے ساتھ ؟ بُھکانے یعنی غبارے کے ساتھ۔

عمران خان نے اعلان کیا کہ عوام ہر جمعے کو کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے گی (فوٹو اے ایف پی)

جی ہاں اور یہ وہی دن تھا جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی ہونا تھا  کشمیر پر جس میں ہم نے ایک مذمتی قرار داد پیش کرنی تھی۔ پہلے دو چار گھنٹے تو میرا دماغ  بُھکانوں میں ہی پھنسا رہا۔ مطلب کشمیر کے ساتھ اتنا بڑا کھلواڑ ہو گیا اور پارلیمنٹ ہماری گیس والے بھُکانے پھلا رہی ہے؟
خیر کچھ دیر بعد مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو ہمارے قائدِ ملت عمران خان ہی حاضر نہ ہوئے۔ کچھ دیر بعد جب اعظم سواتی نے قرار داد پیش کی تو آرٹیکل 370 کا ہی ذکر نہ کیا جبکہ پارلیمنٹ کے ممبران اپوزیشن والے اس پر احتجاج کر کے بائیکاٹ کر گئے۔ سواتی صاحب کا کہنا تھا کہ ’غلطی سے مسٹیک‘ ہو گئی۔ خیر جب دوباہ مشترکہ اجلاس شروع ہوا، تو چاند چہرہ عمران خان بھی تشریف لے آئے۔
وزیرِ اعظم نے اپنی تقریر شروع کی تو ایک ہی بات بار بار جیسے بچے امتحان میں قائدِ اعظم کے 14 نکات کو 20 کر کے دیتے ہیں۔ لیکن میرے اوپر قیامت اس وقت گزری جب وزیرِ اعظم غصے میں آ ئے اور ایک دم چِلّائے ’بتائیں مجھے میں کیا کروں۔‘ 
جب میں سات سال کی تھی، تب یہ سوال میں اپنی اماں جان سے کیا کرتی تھی بوریت میں کہ امـی میں کیا کروں۔ اور یہاں ہمارے ملک کے وزیرِاعظم صاحب تھے جو ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ ’میں کیڑھے پاسے جاواں‘ اور پھر غصے میں پارلمینٹ، جس پر ماضی میں لعنت بھیج چکے ہیں، کے مشترکہ اجلاس سے نکل گئے۔
اللہ اللہ کر کے قرار داد پاس ہوئی اور ایک دن بعد گیس کے بُھکانے بھی غائب ہوئے۔
ایک دو دن بعد ہمارے وزیر خارجہ امور شاہ محمود قریشی جاگے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ انڈیا یہ کرے گا ۔ مطلب نہ وزیرِ اعظم کو کچھ پتہ تھا اور نہ ہی وزیرِ خارجہ کو ۔ تو پھر شاید وزیرِ اعظم نے سوچا کہ چلو پتہ کرواتے ہیں کہ یہ سب کیسے ہوا۔ اپنے سارے ہمالیہ سے اونچے اور سمندر کی گہرائیوں سے بھی نیچے دوستوں کو فون کرنے شروع کیے اور سب نے ایک ہی بات کی ۔ تسی کون او؟

آرٹیکل 370 کو ختم ہونے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی (فوٹو اے ایف پی)

اب عالی جناب نے خطاب میں ایک بڑا اعلان یہ کر دیا ہے کہ عوام ہر جمعہ کو اپنے دفتر کے باہر آدھا گھنٹہ کھڑے ہوں گے، کشمیر سے یکجہتی کے لیے۔
اب سوائے اس کے کہ ناسا اپنی کوئی بہترین دوربین لگا کر پاکستان کو دیکھے، اور کوئی راستہ نہیں کہ کشمیر کے لوگوں کو بھنک بھی پڑے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
وزیرِاعظم روز کوئی نو، دس ٹویٹس بھی کر لیتے ہیں حوصلہ دینے کے لیے۔ پاکستان کی حکومت کا اس وقت یہی حال جیسے امتحان میں سیلیبس سے باہر پرچہ آگیا ہو اور اب سمجھ نہیں آرہی کہ کریں کیا۔
یہ عجیب ہبڑ دبڑ اور تماشہ دیکھ  کر آج میں سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ حکومت کی خارجہ پالیسی اسی طرح ہے جیسے کسی بھُکانے کی ہوا نکلی ہو۔ بُھکانا بھی چھید والا ۔ آپ جو مرضی کر لیں، اس بھُکانے کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ 

شیئر: