Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان پاکستان کا، یا پاکستان بلوچستان کا

خضدار کی ہندو کیمونٹی قیام پاکستان سے بھی پہلے سے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان آتے جاتے اب کافی سال ہو گئے ہیں۔ لیکن جب بھی کوئٹہ سے باہر کسی دور دراز علاقے کا سفر کیا جائے تو خوف اب بھی دل و دماغ کے کسی کونے میں موجود ہوتا ہے۔
اس مرتبہ جب ہم کوئٹہ کی سریاب روڈ کے بیرونی سرے پر پہنچے اور دیہاتی علاقے میں داخل ہونے ہی والے تھے کہ سفر کے دوران کھانے پینے کی اشیا لینے کا خیال آیا۔
میرے مغربی لباس کو دیکھتے ہوئے ہمارے ڈرائیور نے مجھے منع کیا کہ میں مقامی دکانوں پر نہ جاؤں، لیکن دل میں وسوسے کے باوجود میں خود ہی سامنے ایک دکان پر چلا گیا۔
چونکہ میں پینٹ شرٹ پہنے ہوئے تھا، اس لیے گاڑی سے اترتے ہی سب کی تنقیدی توجہ کا مرکز بن گیا۔ میں جلدی سے سامنے ایک جنرل سٹور میں داخل ہو گیا تا کہ زیادہ لوگوں کی نظرسے بچ سکوں۔

بلوچستان کے ہنرمند اپنے فن کی روایتوں سے وابستہ رہتے ہوئے اس میں جدت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

دکان کے کاؤنٹر پر بیٹھے ایک گھنی مونچھوں اور داڑھی والے درمیانی عمر کے بلوچ بھائی کو سلام کیا اور اپنی مطلوبہ چیزیں بتائیں۔
خریداری کے دوران دکاندار نے مجھ سے پوچھا ’’آپ کہاں سے ہو؟‘
میرے جواب کہ اسلام آباد سے آیا ہوں، پر اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا ’اوہ، اچھا پاکستان سے آئے ہیں۔‘ اور وہ ساتھ ہی مسکرا دیا۔
میں اس کے لہجے میں چھپے طنز کو بھانپ گیا تھا۔ میں نے اسی طرح ہنستے ہوے جواب دیا ’جی بالکل، بلوچستان کے پاکستان سے۔‘
دکاندار بھائی کے چہرے پر محبت بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔
مگرخوشگوار حیرت مجھے تب ہوئی جب میں نے اپنی مطلوبہ چیزیں خریدنے کے بعد میرل بلوچ کو پیسے دینا چاہے تو اس نے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکار کر دیا کہ ’رہنے دیں ، آپ ہمارے مہمان ہیں۔‘
کافی منت سماجت کرنے کے بعد میں نے میرل بلوچ نامی دکاندار کو آدھے پیسے لینے پر منا لیا۔
جب میں واپس گاڑی میں آیا تو دل میں خوف اور وسوسے کی بجائے میرل بلوچ جیسے سادہ لوح لوگوں کی محبت سما گئی تھی۔
کوئٹہ کراچی ہائی وے، جو آج سے 25 سال پہلے ایک فرانسیسی کمپنی نے تعمیر کی تھی اور آج بھی بہترین حالت میں موجود ہے، پر خضدار کے لیے سفر کرتے ہوئے بالکل بھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم پاکستان کے پسماندہ ترین صوبے میں ہیں، ارد گرد کے قدرتی مناظر نے ہمارے سفرکو اور بھی خوبصورت بنا دیا۔
خضدارکا بازار بھی کافی پر رونق ہے۔ یہ ایک ذیلی روڈ کے دونوں طرف سے شروع ہوکر کافی دور تک جاتا ہے ۔ اس پر زیادہ تر کپڑے، منیاری، پرچون، برتنوں اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیا کی دکانیں ہیں ۔
میرے مقامی دوست جلال گھچکی نے بتایا کہ اس بازار میں ہندوؤں کی دکانیں کافی زیادہ تعداد میں ہیں، اور یہاں کی ہندو کیمونٹی پرامن طریقے سے اپنا کاروبار قیام پاکستان سے بھی پہلے سے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کی یہ بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ مذہبی رواداری کا یہ والا پہلو پہلے کبھی کوئی سامنے کیوں نہیں لایا؟
ہم بازار سے ہوتے ہوے شہر کی عقبی طرف سے گزرتی سڑک پر ہو لیے کہ جہاں دور پہاڑوں کے دامن میں ایک سرکاری میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی کی بلڈنگز نظرآ رہی تھیں۔

بلوچستان کی دیہی و شہری زندگی میں ہی نہیں بلکہ کھیلوں میں بھی روایتوں کی جھلک موجود ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

میں نے اپنے میزبان  سے کہا کہ خضدار کے لوگ اس معاملے میں کتنے خوش قسمت ہیں، کہ بیک وقت میڈیکل کالج، انجینئرنگ اور وویمن یوینورسٹی جیسی سہولیتیں انہیں حاصل ہیں ۔ جب کہ میرے آبائی شہر میانوالی میں ایسی ایک بھی سہولت موجود نہیں ۔
جلال نے مسکراتے ہوے جواب دیا کہ صرف انفراسٹرکچر کھڑا کر دینے سے علاقے کہاں ترقی کرپاتے ہیں، اگرمعیار تعلیم نہ ہو تو محض تعلیمی ادارے بنانے کا کیا فائدہ ۔
جلال کے خیال میں خضدار میں بنائی گئی یہ یونیورسٹیاں محض سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اپنے اپنے ووٹروں اور قبیلے کے لوگوں میں نوکریاں تقسیم کرنے کا ایک بہانہ تھیں ۔
اس کے بقول خضدار کے اس علاقے میں اتنا بڑا انفرا سٹرکچر بنانے کی بجائے اگر یہاں کے نوجوانوں کوپاکستان کے دوسرے بڑے شہروں جیسے کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں سکالرشپ پر بھیجا جاتا تو نا صرف یہ اقدام انہیں ایک بہتر اور معیاری نظام تعلیم سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتا ، بلکہ مدہم پڑتی ہوئی قومی ہم آہنگی کے فروغ اور رنجشوں کے نصاب کو رد کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ۔
اگلے دن ہم تحصیل زہری گئے جو ایک انتہائی ذرخیز علاقہ ہے اور اس نسبت سے اسے خضدار کا پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔
چلتے چلتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں تھا۔ صرف چند جھونپڑا نما گھر تھے جو انسانی تاریخ کے غاروں میں رہنے کی یاد تازہ کرتے تھے۔ بجلی، پانی، سکول، سڑک، ہسپتال، درخت وغیرہ نام کی کوئی چیز یہاں نہیں تھی۔
ہم ایک جھونپڑی کے اندر گئے تو باہر شدید گرمی ہونے کے باوجود یہ کافی ٹھنڈی تھی۔
 میں نے اس جھونپڑی میں موجود چار افراد سے پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کہا ں رہتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں خضدار۔ مگر جب ان سے پوچھا کہ ان کے ملک کا کیا نام ہے، تو چاروں نے انتہائی سادگی سے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم۔
اس پرجلال کہنے لگا کہ ان لوگوں کی زندگی مال مویشیوں کو چرانے سے لے کر پہاڑوں میں مزدوری کرنے اوربچوں کے لیے بمشکل دو وقت کی روزی روٹی لانے میں گذرتی ہے۔ انہیں ملک اور صوبوں کے ناموں سے کیا غرض؟
انہیں نہیں معلوم کہ بلوچستان پاکستان کا ہے یا پاکستان بلوچستان کا۔

 

شیئر: