Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلا جو پیدا تو ہوتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی

حکومت ملک کو اس بلا سے محفوظ بنانا چاہتی ہے تو منصوبہ بندی ضروری ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی
ویسے تو دنیائے فانی میں ہر چیز کو فنا ہونا ہے لیکن اس فانی دنیا میں بھی انسان کے ہاتھوں تخلیق پانے والی ایک غیرفانی چیز فطرت کے اس اصول سے مستثنیٰ ہے۔ یہ وہ بلا ہے جو پیدا تو ہوتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی۔
انسان کی سہل پسندی نے اسے جنم تو دے دیا مگر اب اسے ختم کرنے سے قاصر ہے۔ اس بلا کا نام پولیتھین ہے جسے پلاسٹک شاپنگ بیگ بھی کہتے ہیں۔
پلاسٹک کے یہ شاپنگ بیگ جو اب انسان کی ضرورت بن چکے ہیں انسان کے لیے وبال جان سے کم نہیں۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ میں جو استعمال ہونے والے کیمیکل پولی تھین کو نہ جلایا جا سکتا ہے نہ دفنا کر ختم کیا جا سکتا ہے۔
ایک بار بننے کے بعد یہ ہزاروں سال تک زمین پر یا پانی میں نا صرف اپنے وجود کو برقرار رکھتا ہے بلکہ آبی مخلوقات کے ساتھ ساتھ کئی جانداروں کے وجود کے لیے خطرہ بھی بنا رہتا ہے۔
ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کے مطابق کرہ ارض پر ہر سال ایک کھرب تک شاپنگ بیگ  تیار ہو کر ہمیشہ کے لیے اس چھوٹے سے سیارے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
دیر سے ہی سہی انسان کو آخر اپنے ماحول کی حفاظت  کا خیال تو آیا، باقی دنیا کی نسبت پاکستان میں یہ خیال قدرے دیر سے آیا۔ اب حکومت نے پولی تھین شاپنگ بیگز پر اچانک پابندی لگا کر اپنی طرف سے ماحول کے تحفظ کے لیے اپنی کوشش تو ظاہر کر دی ہے لیکن فی الحال اس کو ایک ناکام کوشش ہی کہا جا سکتا ہے۔
پہلی چیز تو یہ دیکھنی ہوگی کہ پاکستان میں شاپنگ بیگ کی صنعت سے براہ راست آٹھ لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ بالواسطہ فائدہ اٹھانے والے اس کے علاوہ ہیں۔ یوں اچانک بغیر کسی منصوبہ بندی کے بیک جنبش قلم اتنی بڑی صنعت کو غیرقانونی قرار دے کر ان سب لوگوں کو بے روزگار کردینا کسی بھی طرح احسن اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگر حکومت واقعی ملک کو اس ماحول دشمن بلا یعنی شاپنگ بیگ سے پاک کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ ذیل میں کچھ تجاویز کا ذکر کر رہی ہوں جن پر عمل سے کسی حد تک اس بلا سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یہ وہ بلا ہے جو پیدا تو ہوتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

دنیا میں شاپنگ بیگ بنانے کے لیے اب بائیو ڈی گریڈ ایبل طریقہ استعمال ہورہا ہے اور اس طریقے سے تیار کیا گیا شاپنگ بیگ جزوقتی مصیبت تو ہوگا لیکن کل وقتی مسئلہ نہیں رہے گا۔
عام شاپنگ بیگ میں پولیتھین نامی کیمیکل کی جگہ اولیفین کیمیکل استعمال کیا جائے تو وہ آسانی سے تلف کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ شاپنگ بیگز بنانے والی کمپنیوں کو پولی تھین کے بجائے اولیفین کے استعمال کا پابند بنائے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ شاپنگ بیگ کی تیاری میں کیمیکل ڈی ٹو ڈبلیو استعمال کیا جائے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ استعمال کے بعد اگر پھینک دیا جائے توپانچ سے چھ ماہ کی مدت میں خود بخود تحلیل ہوجاتا ہے۔
پوٹاشیم کاربونیٹ کا استعمال کیا جائے تو یہ بلا اس سے بھی کم وقت میں ختم ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھیں
 2017 میں خیبر پختونخوا میں بائیو ڈی گریڈ ایبل پلاسٹک بیگز استعمال کرنے کے لئے رولز کا اجراء کیا گیا تھا لیکن وفاقی حکومت نے اس کے بجائے پٹ سن کے شاپنگ بیگ بنانے پر زور دے رکھا ہے۔ پاکستان کو اتنے بڑے پیمانے پر پٹ سن کے بیگز بنانے کے لیے پٹ سن بنگلہ دیش سے درآمد کرنا پڑے گی جو کہ یقیناً مہنگی پڑے گی۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی بنا ٹیسٹ کیے غیررجسٹرڈ اور غیرمعروف  کمپنیوں کے بنائے ہوئے اُن شاپنگ بیگز کی مارکیٹنگ کرتی پھر رہی ہے جن میں اور عام شاپنگ بیگ میں صرف یہ فرق ہے کہ ان میں استعمال ہونے والا مواد دگنا ہے۔ اگر وزارت موسمیاتی تبدیلی واقعی اس بلا سے جان چھڑانا چاہتی ہے تو اسے بائیو ڈی گریڈ ایبل طریقہ اپنانا ہوگا۔

 

شیئر: