Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پڑھائیں یا مہم چلائیں: پاکستانی استاد کا المیہ

آج یوم اساتذہ ہے۔
لیکن پاکستان کے استاد گلی محلوں میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔
صرف ڈینگی ہی نہیں، پاکستان میں کوئی آفت آئے، طوفان، سیلاب یا انتخابات، اساتذہ کو سکولوں سے نکال کر دیگر کاموں پر لگا دیا جاتا ہے۔
شجر کاری مہم، پولیو ویکسینیشن، کشمیر ڈے، یوم آزادی، اور حکمران جماعت کا جلسہ، ان سب کاموں کو کامیاب بنانا اساتذہ کا فرض ہے۔
اور ان تمام فرائض کی بجا آوری کے بعد معیار تعلیم بلند رکھنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔
اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے تربیت شاید دوسرے ملکوں میں ایک اہم جزو ہو گا لیکن پاکستان میں اس کی چنداں ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔
یہ چند خیالات ان درد بھری داستانوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں، جو ہمارے استاد ہر یوم اساتذہ پر سناتے ہیں۔
بالخصوص صوبہ پنجاب کے اساتذہ کے دکھڑے کچھ زیادہ ہی دردناک ہیں۔

سکولوں میں ہر سال 10 فیصد انرولمنٹ بڑھانا اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

وہ کہتے ہیں کہ یہ سارے امور سر انجام دینے کے بعد انہیں وزیراعلٰی کے 23 کے لگ بھگ پرفارمنس انڈیکیٹرز پر پورا اترنا ہوتا ہے اور اس میں غفلت پر ان کی نوکری تک چلی جاتی ہے۔
سرکاری سکول اساتذہ کی تنظیم ’پنجاب ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن‘ کے مرکزی صدر محمد صفدر کے مطابق صوبے کے تقریباً چار لاکھ ساڑھے چار ہزار اساتذہ کے ساتھ حکومت کا سلوک ایسا ہوتا ہے جیسے وہ استاد نہیں بلکہ ملزم ہوں۔
’ہمارے پاس یہ بھی اختیار نہیں کہ ہم سارا سال غیر حاضر رہنے والے بچے کا نام خارج کر سکیں۔ ایسا کرنے پر الٹا ہمارے خلاف ہی تفتیش شروع ہو جاتی ہے۔‘
اساتذہ کے پرفارمنس انڈیکیٹرز میں ایک خاص علاقے کے 100 فیصد بچوں کی انرولمنٹ اور 95 فیصد حاضری سمیت بچوں کے نتائج، سکول کی صفائی ستھرائی اور اساتذہ کی اپنی 100 فیصد حاضری شامل ہے۔

اساتذہ کو دیگر کاموں میں مصروف رکھنے سے بچوں کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

حکومت کی نگاہ ان انڈیکیٹرز پر تو ہمیشہ رہتی ہے لیکن اساتذہ کے مسائل کو کبھی در خور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔
اکثر پرائمری سکولوں میں سپورٹنگ سٹاف تعینات نہیں جس کی وجہ سے اساتذہ کے لیے سکول کی صفائی اور بچوں کی انرولمنٹ وغیرہ جیسے اہداف پورے کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
صفدر کے بقول ’پرائمری سکولوں میں سویپر نہیں ہیں اور بچوں سے صفائی کروانے پر پابندی ہے لیکن صفائی نہ ہونے پر 10 ہزار روپے جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اساتذہ خود صفائی کریں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح ہر سکول کو سالانہ 10 فیصد انرولمنٹ بڑھانے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے، جس کے لیے اساتذہ کو گھر گھر جا کر والدین کی منتیں کرنا پڑتی ہیں۔
اور ترقی کے لیے ضوابط بہت سے اساتذہ کی خواہشات کے برعکس ہیں۔
’گذشتہ حکومت نے پرائمری و ایلمنٹری سکول ٹیچرز کو ترقیاں ضرور دی ہیں مگر صوبے میں 1990 سے کام کر رہے 16ویں سکیل کے تقریباً 46 ہزار سیکنڈری سکول ٹیچرز آج بھی اسی درجے پر ملازمت کر رہے ہیں۔‘ 

خواتین اساتذہ کے مسائل مرد اساتذہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اگر استاد خاتون ہو تو اس کے مسائل میں ان کے علاوہ بھی اور بہت سی پریشانیاں شامل ہو جاتی ہیں۔
پنجاب کی تحصیل جڑانوالہ کے اس نواحی گاؤں کی لہلاتی فصلوں کے بیچوں بیچ سرکاری پرائمری سکول کی سرخ اور سفید چار دیواری دور سے دکھائی دیتی ہے۔
اس کے گیٹ پر پاکستان کا پرچم بنا ہوا ہے جس میں جابجا چھید ہو چکے ہیں۔
اس گیٹ کے پیچھے ایک نستباً چھوٹے کمرے میں دراز قد حمیرا فراز تیسری جماعت کے بچوں کو ریاضی کے سوال حل کروانے میں مصروف ہیں۔
حمیرا نے ایم بی اے فنانس اور ایم ایڈ کر رکھا ہے۔ وہ اس سکول میں گذشتہ سات برس سے تدریسی فرائض سرانجام دے رہی ہیں مگر اب وہ نوکری چھوڑ کر اپنے نومولود بیٹے کی پرورش پر دھیان دینا چاہتی ہیں۔
ان کے مطابق ایک خاتون کے لیے ایک ساتھ اپنا بچہ پالنا اور سرکاری سکول کی نوکری کرنا کسی طور بھی ممکن نہیں۔
'یہ صرف میرا نہیں، پاکستان کی تمام خاتون ٹیچرز مسئلہ ہے۔ یوں سمجھیے کہ ہمارا سسٹم خواتین ٹیچرز کو خود کہتا ہے کہ آپ شادی کے بعد نوکری چھوڑیں اور گھر بیٹھ کر بچے پالیں۔‘

پرائمری سکولوں میں سپورٹ سٹاف بہت کم ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

'بچے کی پیدائش پر خاتون ٹیچر کو تین ماہ کی چھٹی ملتی ہے، ڈیڑھ ماہ پیدائش سے پہلے اور ڈیڑھ ماہ بعد میں۔ پھر ٹیچر بچے کے ساتھ سکول آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ آپ اپنا بچہ سکول نہیں لا سکتیں، اس پر پابندی ہے۔ آپ سکول میں بچے کو سنبھالیں گی یا پڑھائیں گی؟'
حمیرا کے بقول ’اب ڈیڑھ ماہ کا بچہ جو ماں کا دودھ پیتا ہے اسے گھر کیسے چھوڑ آئیں؟ اور سکول میں ڈے کیئر سنٹر بھی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ سرکار خود کہہ رہی ہے کہ شادی کے بعد خاتون ٹیچرز کو صرف بچے پالنے چاہیئیں۔‘
تعلیمی ماہرین کا ماننا ہے کہ شادی کے بعد خواتین کی ایک بڑی تعداد کے نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھنے کی ایک بنیادی وجہ سکولوں میں ڈے کیئر سنٹرز کا نہ ہونا بھی ہے۔
ماہر تعلیم پروفیسر اخلاق احمد کے مطابق انتظامی مسائل ایک طرف، لیکن تربیت کا فقدان پاکستانی اساتذہ کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
’ہمارا استادآئی ٹی سے نابلد ہے، اسے کلاس روم مینیجمنٹ کے بارے میں علم نہیں اور نہ ہی وہ ٹیچنگ کے ماڈرن طریقوں کے بارے میں جانتا ہے۔ یہ سب حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکومت اب تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ آخر نظام تعلیم ہونا کیسا چاہیے اور اس نظام میں استاد کا کردار کیا ہے؟‘
ان کے مطابق مہنگائی کے اس دورمیں سکول اساتذہ کی تنخواہیں بھی انتہائی کم ہیں جس کہ وجہ سے وہ دل لگا کر پڑھانے کے بجائے پیسے کمانے کے دیگر ذرائع پر دھیان دیتے ہیں، نتیجاً بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔

پنجاب کے سکولوں میں ڈے کیئر سنٹرز کا تصور ہی نہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن لاہور پرویز اختر کے بقول سکولوں کی بلڈنگ، فرنیچر یا دیگر سہولیات کی بحث اب پرانی ہو گئی ہے۔ اب ٹیچرز کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر حال میں وزیر اعلٰی کے انڈیکیٹرز پر پورا اتریں۔
’اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں ملازمت چھوڑ دینی چاہیے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’وزیراعلٰی کے تمام اعشارئیے بچوں کی تعلیم سے متعلقہ ہیں، استاد چاہتے ہیں کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو، وہ جب چاہیں سکول آئیں اور جب چاہیں چلے جائیں۔ ایسا نہیں چلے گا۔ جہاں تک انرولمنٹ کی بات ہے تو وہ اس لیے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کیونکہ اگر وہ محنت کریں گے تو بچے خود انرول ہوں گے۔ اگر ٹیچر نالائق ہوں گے تو کوئی اپنے بچوں کو سرکاری سکول نہیں بھیجے گا۔‘
خواتین اساتذہ کے مسائل کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’بچے کی پیدائش پر حکومت تین ماہ کی چھٹی دیتی ہے، اس کے بعد ٹیچر جو بھی بندوبست کرے یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ سکول بچوں کو پڑھانے کے لیے ہے، اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے نہیں۔‘
ان کے بقول سکولوں میں ڈے کیئر سنٹرز کا قیام پالیسی سطح کا معاملہ ہے لہذا وہ اس پر بات نہیں کر سکتے۔
سکولوں کی صفائی ستھرائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’سپورٹنگ سٹاف کی بھرتی کے لیے ہم نے سمری  بھیجی ہے، امید ہے کہ جلد سٹاف بھرتی ہو جائے گا۔‘

شیئر: