Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ستائیسویں آئینی ترمیم، حمایت کے بدلے حکومت سے کون کیا مانگ رہا ہے؟ 

پاکستان کی سیاست میں آج کل پھر سے گہما گہمی لوٹ آئی ہےکیونکہ ایک بار پھر آئینی ترمیم کا مرحلہ درپیش ہے۔ 
حکومت نے ’ستائیسویں آئینی ترمیم‘ کے مسودے پر اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں تو اتحادیوں نے بھی علی الاعلان اور پسِ پردہ مطالبات کی پٹاری کھول کر حکومت کے سامنے رکھ دی ہے۔ 
پارلیمانی سیاست کے روایتی انداز کے مطابق ترمیم کی حمایت محض اتفاقِ رائے کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخصوص مطالبات، سیاسی مفاہمتوں اور اندرونی یقین دہانیوں سے مشروط ہوتی ہے۔ 
حکومت کے اتحادی اپنی حمایت کے بدلے ایسے مطالبات سامنے لا رہے ہیں جو محض علامتی نہیں بلکہ طاقت، وسائل اور اختیارات کی نئی تقسیم کی نشان دہی کر رہے ہیں۔
 اس مجوزہ ترمیم کے ممکنہ مسودے میں عدلیہ کی ساخت میں تبدیلی، ایک علیحدہ آئینی عدالت کے قیام اور وفاقی و صوبائی اختیارات کی نئی درجہ بندی جیسے نکات شامل ہیں۔
 ان نکات کے باعث نہ صرف حزبِ اختلاف بلکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں میں بھی کچھ بے چینی پائی جاتی ہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں اتحادیوں کی سیاسی طاقت انہیں مطالبات منوانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ 
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اس وقت شہری سندھ کے سیاسی اور انتظامی معاملات کو آئینی تحفظ دلوانے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم نظر آتی ہے۔ 
پارٹی رہنماؤں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران واضح طور پر کہا ہے کہ وہ آئینی ترمیم کی حمایت اسی صورت میں کریں گے جب حکومت کراچی اور حیدرآباد کے عوام سے متعلق اُن کے دیرینہ مطالبات کو عملی جامہ پہنائے گی۔ 
 ایم کیو ایم کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی نے مردم شماری کے نتائج کے مطابق فنڈز کی تقسیم میں آئینی ضمانت، بلدیاتی اداروں کے اختیارات میں آئینی تحفظ، اور ضلعی حکومتوں کو براہ راست فنڈز کی منتقلی جیسے نکات پیش کیے ہیں۔ 
ان کا موقف ہے کہ شہری سندھ کی سیاسی حیثیت کو مضبوط کیے بغیر کسی بھی آئینی ترمیم کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ سکتا۔
ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا ہے کہ بلدیاتی نظام اور انتخابات کو آئینی تحفظ دیا جائے اور عام انتخابات کی طرح بلدیاتی اداروں کی تحلیل کے بعد مقررہ آئینی مدت میں بلدیاتی انتخابات کروانے پر صوبے اور الیکشن کمیشن کو پابند کیا جائے۔ 
 پارٹی کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی یہ مطالبہ کیا تھا کہ جمہوریت کو عوام کے لیے عملی طور پر کارآمد بنایا جائے۔ 
ڈاکٹر خالد مقبول کے مطابق ’ہم نے اس وقت کوئی غیر معمولی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ یہ ایوان عام پاکستانیوں کے لیے قانون سازی کا مرکز ہے۔ ہم نے ستائیسویں ترمیم کے معاملے پر خود حکومت سے رابطہ کیا اور وزیراعظم سے ملاقات بھی کی۔‘
دوسری جانب حکومت کی اہم اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور جمہوری وطن پارٹی نے بھی حکومت کی حمایت کو اپنی شرائط سے مشروط کیا ہے۔ 
بی اے پی کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگلی آئینی ترمیم میں بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے گا لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ 
پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی آبادی، رقبے اور پسماندگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے نشستوں کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہے تاکہ صوبے کے مسائل پارلیمنٹ میں مناسب نمائندگی کے ذریعے اُجاگر ہو سکیں۔
پارٹی ذرائع کے مطابق بی اے پی نے وفاقی کابینہ میں دو نئے قلم دانوں کا مطالبہ بھی کیا ہے جن میں اقتصادی امور اور بین الصوبائی رابطے کی وزارتیں شامل ہیں، تاکہ بلوچستان کی ترقیاتی سکیموں پر براہِ راست نگرانی کی جا سکے۔
 بی اے پی کا کہنا ہے کہ جب تک وفاق ترقیاتی فنڈز کو بیوروکریسی کے ذریعے جاری کرتا رہے گا، بلوچستان حقیقی معنوں میں فیصلہ سازی کا حصہ نہیں بن سکے گا۔
دوسری جانب مسلم لیگ ق نے بھی پنجاب میں اپنے محدود ہوتے اختیارات کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے ہیں۔ 
چودھری سالک حسین کی سربراہی میں مسلم لیگ ق کے وفد نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی جس میں 27ویں ترمیم کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔ 
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ق کے وفد نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بالخصوص مریم نواز کی جانب سے اس کے وزراء کے گجرات اور گردونواح کے اضلاع میں اختیارات محدود کرنے اور بیوروکریسی کی تعیناتیوں میں مشاورت کا مطالبہ کیا ہے۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس آئینی بحث میں نسبتاً محتاط مگر سیاسی طور پر مضبوط موقف اپنایا ہے۔ پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری کے مطابق چیئرمین بلاول بھٹو نے واضح کر دیا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
 پارٹی کا مؤقف ہے کہ اگر ستائیسویں ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت اختیارات کو دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینے یا صوبوں کے دائرہ کار کو محدود کرنے کی کوشش کرے گی تو پیپلز پارٹی اس کی سخت مزاحمت کرے گی۔ 
پارٹی کے قریبی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے حکومت سے تحریری یقین دہانی مانگی ہے کہ کسی بھی نئی آئینی ترمیم کے نتیجے میں صوبائی خودمختاری متاثر نہیں ہوگی اور وفاق و صوبوں کے درمیان طاقت کے توازن کو برقرار رکھا جائے گا۔
دوسری جانب یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کو حکومت میں یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ صوبائی اختیارات سے متعلق اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں اس معاملے کو موجودہ آئینی سے نکال دیا جائے گا اور ایسی صورت میں پیپلز پارٹی دیگر ترامیم پر حکومت کا ساتھ دے گی۔ 
دوسری جانب حکومت کے چھوٹے اتحادی اور آزاد ارکانِ پارلیمنٹ اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے اجرا اور مخصوص وزارتوں کے حصول کے خواہاں ہیں۔ 
جمہوری وطن پارٹی اور بعض آزاد ارکان نے اپنی حمایت کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سے مشروط کیا ہے۔ 
ان تمام مطالبات کے ساتھ ساتھ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ اندرونی سطح پر اتحادی جماعتیں مستقبل کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے غیرعلانیہ یقین دہانیاں بھی چاہتی ہیں۔
’بعض جماعتوں نے آئندہ عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ، کابینہ میں اختیارات میں اضافے اور اہم تعیناتیوں میں مشاورت کا مطالبہ کیا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق یہ ترمیم محض قانونی تبدیلی نہیں بلکہ طاقت کے توازن کی ازسرِنو تقسیم ہے، جس میں ہر اتحادی اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف نے ایم کیو ایم، استحکام پاکستان پارٹی، اور بی اے پی کے وفود سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں۔
ان ملاقاتوں جن میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور دیگر وزرا بھی شریک تھے۔
 وزیراعظم آفس کے مطابق ان ملاقاتوں کا مقصد تمام اتحادیوں کے خدشات کو سننا اور ان کے جائز مطالبات کو آئینی دائرے میں حل کرنا ہے۔ 
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ترمیمی بل کو قومی اتفاقِ رائے سے منظور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ یہ فیصلہ قومی استحکام کی علامت بن سکے۔
تاہم حزبِ اختلاف کی جماعتوں، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف، نے اس مجوزہ ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ 
پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق اس ترمیم کے ذریعے حکومت عدلیہ کو پارلیمنٹ کے زیرِاثر لانے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے ریاستی اداروں کے درمیان توازن بگڑ جائے گا۔
حزبِ اختلاف کا موقف ہے کہ آئینی ترمیم کے نام پر اداروں کی حدود میں مداخلت ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام پیدا کرے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آئینی تاریخ میں ہر بڑی ترمیم کے پیچھے سیاسی سمجھوتوں کی ایک داستان موجود ہے۔ حکومت کے لیے یہ ترمیم محض قانون سازی نہیں بلکہ سیاسی امتحان ہے۔
’دوسری جانب اتحادی جماعتوں کے لیے یہ موقع اپنے آئندہ پانچ برس کے سیاسی مقام کو مستحکم کرنے کا ہے۔‘
اس پس منظر میں یہ سوال اب پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے سے پہلے کون سی جماعت کس یقین دہانی کے بدلے میں اپنا ووٹ دے گی؟

شیئر: