Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں ہی دکان دار ہوں‘

دنیا بھر میں خواتین ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں تاہم بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں اب بھی خواتین کا کردار محدود ہے۔ ایسے میں ایک خاتون کے لیے گھر سے باہر نکل کر اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا کسی پہاڑ کے سر کرنے سے کم نہیں۔
کوئٹہ کی 52 سالہ طاہرین اختر بلوچستان کی ان چند گنی چنی خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے تمام مشکلات کے باوجود نہ صرف اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا بلکہ اسے کامیابی سے چلا بھی رہی ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے طاہرین اختر نے بتایا کہ وہ گذشتہ 25 سال سے یونیفارم کے کام سے وابستہ ہیں۔ ’پہلے میں خود ایک ورکر کی حیثیت سے کام کرتی تھی مگر تین سال قبل یونیفارم کا اپنا کام شروع کیا اور کوئٹہ کے معروف کاروباری مرکز لیاقت بازار کے قریب آرچر روڈ پر یونیفارم کی دکان چلا رہی ہوں۔‘

طاہرین اختر کا کہنا ہے کہ خواتین ہر شعبے میں جاسکتی ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

طاہرین اختر کے مطابق دوسروں کا کام کرکے انسان ساری زندگی ملازم ہی رہتا ہے اس لیے میں نے خود اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا مگر اس کے لیے مجھے مسلسل جدوجہد کرنا پڑی کیونکہ کوئٹہ میں ایسا کرنے والی دوسری کوئی خاتون نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں خواتین کے لیے دکانداری یا کوئی کاروبار کرنا برا سمجھا جاتا ہے۔ یہاں خواتین کے لیے گھر سے باہر نکلنا مشکل ہے کسی خاتون کو مارکیٹ میں بیٹھ کر کام کرنے کے لیے بہت ہمت چاہیے۔ ’مجھے اب بھی لوگوں کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ دکان پر بھی جب کوئی شخص آتا ہے تو مجھے دیکھ کر وہ حیران ہوجاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ دکاندار کون ہے۔ جب میں کہتی ہوں کہ دکاندار میں ہی ہوں تو انہیں حیرت ہوتی ہے۔‘
طاہرین اختر کے بقول ان کے خاندان کے بعض لوگوں نے بھی اعتراضات کیے۔ ’انسان جدوجہد کرکے اور معاشرے سے لڑ کر ہی کسی مقام تک پہنچتا ہے۔ میں نے بھی گھر سے نکل کر ورکر کی حیثیت سے کام کرنے اور پھر اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے کے بعد مشکلات کا استقامت سے مقابلہ کرکے ہی یہ مقام حاصل کیا۔ میں خود ہی کراچی، لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد جا کر فیکٹریو ں اور بڑی مارکیٹوں سے خریداری کرکے سامان کوئٹہ لاتی ہوں۔‘
مزید پڑھیں

 

ان کا کہنا ہے کہ انہیں سب سے زیادہ ان کے شوہر نے سپورٹ کیا۔ ’انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا جس کی وجہ سے میں آج یہاں بیٹھی ہوں۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے مگر میرے شوہر نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ اگر گھر والے اسی طرح خواتین کی مدد کریں تو ہمارا معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔‘
طاہرین اختر کا کہنا ہے کہ خواتین ہر شعبے میں جا سکتی ہیں۔ مریم مختار کم عمری میں جنگی جہاز کی پائلٹ بنیں اور شہادت کا رتبہ پایا۔

طاہرین اختر کے مطابق کچھ لوگ تنگ بھی کرتے ہیں مگر مجموعی طور پر لوگ احترام کرتے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

طاہرین اختر نے بیچلر آف ایجوکیشن اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے اور کوئٹہ کے ایک سرکاری سکول میں بچوں کو پڑھاتی بھی ہیں۔’میں سکول سے فارغ ہونے کے بعد دکان پر آتی ہوں۔ میرے ساتھ میرا بیٹا، بھتیجے اور بھانجے بھی کام کرتے ہیں۔ یہ حق حلال کا کام ہے اور اس میں مجھے کوئی نقصان بھی نہیں ہوا، ہمیشہ فائدہ ہی ہوا۔ میں اپنی بیٹیوں اور بیٹے کی تعلیم اور روز مرہ زندگی کی ضروریات پوری کرتی ہوں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کا اپنا نظریہ ہے کہ گھر میں بیٹھ کر لڑائی یا جھگڑا کرنے یا کسی سے مانگنے کی بجائے محنت مزدوری کرنی چاہیے۔ ’اب بہت سی خواتین مجھے دیکھ کر محنت کر رہی ہیں۔ میرے ساتھ بہت سی خواتین ورکرز بھی کام کر رہی ہیں۔ انہیں ایک خاتون کے ساتھ کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بعض اوقات مارکیٹ سے گزرتے ہوئے خواتین مجھے دیکھ کر صرف دعا سلام کرنے آ جاتی ہیں اور میرے کام کے بارے میں جان کر خوش ہوتی ہیں اور سراہتی ہیں۔‘

 

ان کے مطابق کچھ لوگ تنگ بھی کرتے ہیں مگر مجموعی طور پر لوگ احترام کرتے ہیں۔
’تین سال کے عرصے میں بہت تبدیلی آئی ہیں مارکیٹ کے باقی دکاندار بھی مدد کرتے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں اب تبدیلی آ رہی ہے۔ لوگوں میں مزید شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ یہاں کی خواتین میں قابلیت کی کمی نہیں۔ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی ہیں۔
طاہرین اختر کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی باقی خواتین کے لیے بھی میرا پیغام ہے کہ عزت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حالات اور استعداد کے مطابق کام کریں۔ اپنا ایک مقصد بنائیں اور اسے پورا کریں۔ کام کرنے اور محنت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے اللہ اور رسو ل کریم نے فرمایا کہ محنتی اللہ کا دوست ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: