Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چپاتی کا چانٹے سے کیا تعلق؟

آج گھاٹ پر علامہ جُگادری اپنے کامیاب کاروبار کی دسویں سالگرہ منا رہے تھے۔ چاروں طرف لہراتے رنگ برنگ ملبوسات جشن کا سماں پیش کررہے تھے۔ خود علامہ دھوب میں آئے پینٹ کوٹ پہنے اِٹھلا رہے تھے۔ مگر علامہ کی کمر پینٹ کے مقابلے میں کچھ کسر کھا رہی تھی اس لیے پینٹ ہر دو قدم پر اُترا چاہتی تھی۔ علامہ نے پیٹی (بیلٹ) کی عدم موجودگی میں اس کا حل ناڑا باندھ کر نکالا اور کسر پوری کردی۔
یوں تو پیدائشی سرٹیفکیٹ اور تعلیمی ریکارڈ کے مطابق علامہ کا نام ’مُترشح العالم کلغی اوغلو‘ ہے مگر اس نام کی ثقالت، طوالت اور دہشت بلکہ وحشت سے بچنے کے لیے احباب اُنہیں ’علامہ جُگادری‘ پکارتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے ’جُگادری‘ ہی کیوں، کچھ اور کیوں نہیں؟ تو عرض ہے کہ علامہ کا مطالعہ اور مشاہدہ کمال کا ہے۔ ایسے میں’علامہ جُگادری‘ کا خطاب ان پر پھبتا بھی ہے کہ اس کے معنوں میں ’پرانا ،گھاگ، عالم، فاضل، ماہر اور بارعب‘ شامل ہیں۔

 

خیر ذکر تھا گھاٹ پارٹی کا جس میں کڑے انتخاب کے بعد جن افراد کو مدعو کیا گیا ان  میں ایک راقم اور دوسرے محلے کی مسجد کے پیش امام تھے۔ یعنی علامہ سمیت شرکا کی تعداد فقط تین افراد پر مشتمل تھی۔ مہمانوں کی تواضع کیک اور چائے سے کی گئی۔ ہم نے کیک کا پیس اٹھاتے ہوئے پوچھا :’ علامہ ’کیک‘ کے بارے میں آپ کی تحقیق کیا کہتی ہے؟‘
ہمارا اتنا پوچھنا تھا کہ گویا باب فصاحت کُھل گیا‘۔ کہنے لگے: ’گھی میں گُندھے ہوئے آٹے سے بنی ایک خاص میٹھی روٹی یا ٹکیا جو ہتھیلی جتنی بڑی اور موٹی ہوتی ہے ’کاک‘ کہلاتی ہے۔ اسے ’نانِ قاق‘ بھی کہتے ہیں۔ یہی ’کاک‘ یورپ پہنچ کر کیک (cake) ہوا اور عربی میں ’کعک‘ ہوگیا۔ کیک جب یورپ سے واپس آیا تو اس کی صورت ہی نہیں ’سیرت‘ بھی بدل چکی تھی۔ وہ یوں کہ بعض کیک کی تیاری میں وائن (wine) بھی شامل ہوتی ہے‘۔
’اچھا !!‘ ۔۔۔ ہم نے حیرت سے منہ کھولا تو علامہ نے اسے کیک کی ڈاٹ سے بند کر دیا۔ گویا یہ انتباہ تھا کہ ابھی بولنے کا نہیں سننے کا مقام ہے۔ پھر سلسلہ کلام آگے بڑھایا: ’بلوچستان میں ایک روایتی روٹی گُندھے آٹے کو پتھر پر لپیٹ کر بنائی جاتی ہے۔ بلوچی زبان میں اسے بھی ’کاک‘ کہتے ہیں۔

ہم نےحکایتِ لذیذ کو دراز کرنے کی خاطر پوچھا: ’ کاک اور ’نان ختائی‘ میں کیا فرق ہے؟‘ فوٹو سوشل میڈیا

تم نے مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا نام سنا ہوگا۔ وہ اِنہیں ’کاک‘ کی نسبت سے ’کاکی‘  کہلائے۔
ہم نےحکایتِ لذیذ کو دراز کرنے کی خاطر پوچھا: ’کاک اور ’نان ختائی‘ میں کیا فرق ہے؟‘
بولے: ’پہلے یہ تصحیح کرلو کہ ’نان‘ کا دوسرا ’نون‘ زیر کے ساتھ ہے۔ یوں درست لفظ ’نانِ ختائی‘ ہے۔ یہی غلطی عام طور پر ’نورِجہاں‘ اور ’شاہِ جہاں‘ کے ناموں میں ہوتی ہے، جنہیں عام طور سے نورجہاں اور شاہ جہاں کہتے ہیں۔ خیر موضوع پر آتا ہوں۔۔۔
’ختا‘ غالباً وسط ایشیا کا شہر ہے ( اس کی نسبت چین کی طرف بھی کی جاتی ہے)، جہاں یہ ’نان‘ بنتے تھے یوں اس نسبت سے انہیں ’نانِ ختائی‘کہا جانے لگا۔ اس باب میں ہمیں ’گوگل‘ سے اختلاف ہے جو اس کا رشتہ ’ولندیزیوں‘ سے جوڑتا ہے۔
اور ’نان‘ ؟۔۔۔ پیش امام صاحب نے پہلی بار انٹری دی۔
’نان‘ ایک عمومی (generic) نام ہے جو خمیرے آٹے سے تندور میں بنی روٹی کو کہتے ہیں۔لفظ ’نان‘ قدیم پہلوی لفظ ’نیکان‘ سے نکلا ہے اس کی ایک صورت ’نیگان‘ بھی ہے۔ یہی لفظ بلوچی زبان میں ’نیگن‘ اور کردی زبان میں ’نن‘ ہے۔ فارسی میں اس ’نان‘ کے ساتھ بعض دلچسپ ترکیبیں وابستہ ہیں۔ جیسے کہ ’نان‘ اگر گھی وغیرہ کے تکلفات سے یکسر پاک اور بالکل سادہ ہوتو اسے ’نانِ خشک‘ ، ’نانِ خالی‘ اور ’نانِ تَھِی‘ کہتے ہیں۔
 
نان اگر ’جَو‘ کے آٹے سے بنا ہو تو اسے ’نانِ جویں‘ کہتے ہیں۔ چونکہ یہ غریب غربا کی غذا ہوتی ہے اس لیے اس کے معنی میں ’روکھی سوکھی‘ شامل ہے۔
فارسی میں ’روئی‘ کو ’پنبہ‘ کہتے ہیں۔ یوں نرمی اور ملائمیت کی رعایت ’ڈبل روٹی‘ کو ’نانِ پنبہ‘ بولتے ہیں۔
علامہ بولتے اور ہم کھاتے جارہے تھے،اور ساتھ ہی ساتھ ’واہ‘ ، ’زبردست‘ اور ’واقعی‘ جیسے فقروں کے ساتھ اپنی دلچسپی بھی ظاہر کررہے تھے۔
علامہ بولے:’ کہتے ہیں بھوک میں چاند بھی روٹی دِکھائی دیتا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کے مطابق:
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے  
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
مگر اردو میں اس رعایت سے چاند یا سورج کو کوئی نام نہیں دیا گیا۔ اس کے برخلاف فارسی میں سورج کو مزاجاً ’نانِ آتشیں‘، نانِ خورشید، نانِ زریں اور نانِ گرم‘ کہتے ہیں۔
اہل فارس نان پر لگے تِل یا کلونجی کو ’خالِ نان‘ کہتے ہیں۔ یعنی نان اگر رُخسار ہے تو کلونجی وغیرہ کے دانے اس رُخسار پر ’تِل‘ بن کر اس کا حسن دوبالا کررہے ہیں۔
علامہ ’نان‘ کے ذکر سے پیٹ بھر گیا کچھ روٹی چپاتی کا بیان ہوجائے۔۔۔ امام صاحب نے لقمہ دیا۔
علامہ تو جیسے ’نان بائی‘بنے ہوئے تھے۔ فوراً بولے: روٹی اگر قدرے موٹی اور بڑی ہو تو اُسے روٹ کہتے ہیں۔اسی روٹ سے اس کی تصغیر ’روٹی‘ ہے۔جہاں تک بات ہے ’چپاتی‘ کی تو اسے تم ’چپت‘ میں آسانی سے تلاش کرسکتے ہو۔
’چپت کا چپاتی سے کیا تعلق؟‘۔۔۔ ہم نے حیران ہوکر پوچھا
بالکل تعلق ہے۔۔۔ تھپڑ یا چانٹے کو ’چپات‘ کہتے ہیں جس کی تخفیفی (مختصر) صورت ’چپت‘ ہے۔ چونکہ چپاتی بناتے ہوئے اسے توے پر ڈالنے سے پہلے دونوں ہاتھوں سے چپتیں لگائی جاتی ہیں اس لیے یہ ’چپاتی‘ کہلاتی ہے۔
اس سے پہلے کے بات آگے بڑھتی امام صاحب نے مجلس بڑھانے کا حکم دے دیا اور ہمارے لیے  ان کے حکم سے انکار ممکن نہیں تھا۔
 
 

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: