Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جون جو کہتے ببانگِ دہل کہتے‘

جون ایلیا کئی سال ہندوستان کے جامعہ دیوبند میں گزارے۔ فوٹو سوشل میڈیا
پاک و ہند کی سرزمین نے ایسے ایسے گراں قدر ادیب پیدا کیے ہیں کہ اگر ان کی معرفت حاصل کرنے کا قصد کیا جائے تو ایک زندگی ناکافی ہے۔ ایک ایسا ہی نام جون ایلیا تھا۔
جون جو آج نوجوانوں کا شاعر بن کر ابھر رہا ہے، جس کی زندگی کا فلسفہ اکثر مایوس کن ہونے کے باوجود بھی قاری کے اندر ایک امید جگاتا ہے کہ شاید ’یہ بات کہنے کے لیے کہ زندگی بے مقصد ہے انسان کا زندہ رہنا ازحد ضروری ہے‘۔
آج جون کا نوجوان مداح شاید ان کی زندگی کے ان پہلوؤں سے ناواقف ہو جو جون کو جون بھائی اور ایک عاجز شاعر بناتے تھے لیکن اب بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں جون بھائی کی رفاقت اختیار کی اور ان کی محفل سے فیض یاب ہوئے۔
مزید پڑھیں

 

پاک کالونی کراچی کے حسن ایلیا جو کہ جون کے قریبی دوست بن گئے تھے اس محبت و دوستی کے رشتے کی شروعات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 1993 میں وہ ایک بائیں بازو کی طلبہ تحریک کے ساتھ وابسطہ تھے جب تنظیم نے فیصلہ کیا کہ ڈاؤ کالج میں ہونے والے مشاعرے میں جون ایلیا کو مدعو کیا جائے۔
ہم نے ان کی طرف جانے کا سوچا تو کئی لوگوں سے معلوم ہوا کہ جون بھائی تو سارا دن سوتے ہیں اور شام میں اٹھتے ہیں تو جانا تو فضول ہے اور یہ کہ وہ شاید مشاعرے میں بھی صبح نہ آ سکیں۔
حسن ایلیا اور ان کے کامریڈوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ اسی شام ان کے گھر وارد ہو گئے اور جون سے ملاقات کے دوران ان کو مشاعرے میں شرکت کی دعوت دے ڈالی۔
جون بھائی نے جب ہم نوجوانوں کو دیکھا، ہماری باتیں سنیں اور جب ان کو پتہ چلا کہ ہم سرخ تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں تو فوراً کہا کہ میں بالکل آؤں گا اور یہی ہوا کہ جس دن مشاعرہ تھا جب ہم صبح گیارہ بجے ان کے گھر پہنچے تو وہ جاگ چکے تھے اور تیار بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ مشاعرے کے لیے چل پڑے۔‘
بس پھر حسن ایلیا بتاتے ہیں کہ جون بھائی کے ساتھ ملاقاتوں، رت جگوں اور نجی محفلوں کا تانتا بندھ گیا۔

جون ایلیا نے کئی سال ہندوستان کے جامعہ دیوبند میں بھی گزارے۔ فوٹو سوشل میڈیا

ان دنوں میں بائیک بہت چلایا کرتا تھا۔ جوانی کے دن تھے۔ یہ اپنا معمول ہوگیا کہ میں جون بھائی کے گھر جا کر ان کو سر شام بائیک پر بٹھا لاتا اور اپنے گھر اور دوستوں کو بلا کر ان سے ڈھیر ساری باتیں ہوتیں۔ ہمیں وہ اس لیے بھی زیادہ وقت دیتے کہ سیاسی نظریات میں مماثلت تھی۔
حسن ایلیا بتاتے ہیں کہ جون کبھی بھی لگی لپٹی نہیں کہتے تھے۔ جو نجی محفل میں کہتے وہ ہی ببانگِ دہل سرِ عام بھی کہہ ڈالتے، انہیں کسی کا خوف نہیں رہتا۔
ایک دن انہوں نے حسن ایلیا کو اپنے گھر بلایا تاکہ ان سے اپنا کتب خانہ ترتیب دینے کے لیے مدد لی جاسکے۔
میں گارڈن ایسٹ میں جب ان کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ان کا کمرہ وہ ہے جہاں ان کے بڑے بھائی رئیس امروہوی کو قتل کیا گیا تھا۔ اس گولی کا نشان بھی وہیں موجود تھا اور جون بھائی نے اسی کمرے کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔

جون ایلیا کے اس کمرے میں جب حسن صاحب نے کتابیں رکھنا شروع کیں تو انہوں نے دیکھا کہ عربی اور عبرانی زبانوں کی کتابیں بھی موجود ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جون کو ان دونوں زبانوں پر بھی عبور حاصل ہے۔
جون ایلیا صرف زبان کے ذائقے کے لیے اپنی شاعری میں اشتراکیت کے اصولوں کی بات نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی عام زندگی میں بھی ان اصولوں کو ضرور ملحوظ رکھتے۔
ایک دفعہ ان کا گھر، جو تمام خاندان کی ملکیت تھا، کے بکنے کی نوبت آئی تو خریدار نے بیعانے کے طور پر شاید پچاس ہزا روپے نقد ادا کیے لیکن اس سے مزید پیسوں کا انتظام نہ ہوسکا اور اس نے بقایا رقم ادا نہ کی۔ اب جون کے اہل و عیال میں کچھ لوگوں نے کہا کہ قانون کے مطابق تو ہمیں اس شخص کو یہ بقایا واپس نہیں کرنا چاہیے لیکن جون بھائی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ قانون اور ہے اور اخلاق کچھ اور، وہ بے چارہ شخص یقیناً کسی پریشانی میں مبتلا ہے تب ہی تو رقم ادا نہیں کر پایا اور ہم اس کی پریشانی میں مزید اضافہ نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے وہ بیعانے کی رقم واپس کروادی۔

 

کمال  کی بات یہ بھی تھی گو کہ جون صاحب اہل تشیع میں پیدا ہوئے مگر انہوں نے کئی سال ہندوستان کے جامعہ دیوبند میں گزارے جہاں انہوں نے مفتی بننے کا علم حاصل کیا۔
جون بھائی اپنے اس شعر کے بالکل مصداق ہیں کہ
 
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
جون ایلیا بہت بڑے آدمی تھے اور ہم سب یہ بات جانتے تھے لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے اپنی علمیت کسی پر بھی جھاڑی ہو۔ نہ کبھی زیادہ کتابوں کے حوالے دیتے نہ کبھی اپنی لکھی ہوئی کتابوں پر فخر کرتے۔ وہ کہتے تھے کہ کسی شاعر کی بڑائی اس سے ثابت نہیں ہوسکتی کہ کچھ وقت کے لیے اس کا کلام پڑھا جاتا رہے۔ اسی لیے وہ غالب اور فیض کو بھی بڑا شاعر نہیں سمجھتے تھے بلکہ میر تقی میر کو سب سے بڑا مانتے تھے۔‘
حسن ایلیا بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ ہوا کچھ یوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان سے اردو لغت پر کام کرنے کی درخواست کی۔ بے نظیر سے ملاقات کے دوران جون نے تقاضا کیا کہ انہیں بتایا جائے کہ وہ کس کو جواب دہ ہوں گے۔ ’اس پر بے نظیر نے ان سے کہا تھا کہ آپ فکر نہ کریں۔ آپ کسی کو جواب دہ نہ ہوں گے بلکہ صرف مجھے جواب دہ ہوں گے۔
اس پر جون نے تلملا کر کہا کہ ’میں کسی کو بھی جواب دہ نہیں‘ اور یوں اس منصب کو ٹھکرا دیا۔
ساری عمر جون کے کچھ قریبی لوگ ان سے عام زندگی گزارنے کی توقع کرتے رہے حالانکہ وہ عام انسان تھے ہی نہیں۔ وہ زندگی کے مروجہ اصول کو خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے اور کسی کی اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ ان دنیاوی اصولوں کی بابت ان کو نصیحت کر سکے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: