Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مجھے ڈھونڈتے رہنا، دیکھنا لوٹ آؤں گا‘

پاکستان سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کے لیے خلیجی ممالک میں مقیم ہے: فوٹو اے ایف پی
بانو نے کہا وہ ٹیکسی گذشتہ دس برس سے چلا رہی ہے ۔اس کے شوہر رضا نے اسے چھوڑا بھی نہیں لیکن رابطہ بھی نہیں رکھا۔
کویت جانے کے بعد اس نے پہلے دو سال تو رابطہ رکھا، پیسے بھی باقاعدگی سے بھیجتا رہا لیکن پھر یہ رابطہ ہفتوں کے بعد مہینوں پر محیط ہو گیا۔
اب کبھی کبھی والد کو فون آتا ہے اور بچوں ہی سے بات کرتا ہے میرا ذکر بھی نہیں کرتا اگرچہ میں قریب ہی ہوتی ہوں۔ تینوں بچے اب بڑے ہو چکے ہیں۔ بڑا ہائی سکول میں ہو گیا ہے۔ میں نے ساس سسر کی اجازت سے اس پیشے کا انتخاب کیا ہے۔ زندگی بھی کیسے کیسے امتحان لیتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک کھوکھلا سا قہقہہ لگایا۔
ہم نے سوچا آج کل ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے کیوں نہ ان دونوں کے لیے اسے ہی کہہ دیا جائے اگلے روز وہ وقت مقررہ پر پہنچ گئی۔ آدھے گھنٹے کا راستہ جلد ہی باتوں میں گزر گیا۔ بانو بہت صابر خاتون تھی۔ اس کی باتوں میں اللہ کی رضا تھی۔
اکثر بتاتی،رضا بہت محبت کرتے تھے، نہ جانے کیا ہو گیا، پھر قہقہہ لگاتے ہوئے بولی، کیا سچ ہے،
تم نے کہا تھا
اگرکبھی ہم
بچھڑ گئے تو ایسا کرنا
دل میں پیار کے جگنو بھر کر
کچھ پل
مجھ کو ڈھونڈتے رہنا
دیکھنا میں لوٹ آؤں گا
تم یہ کہہ کر چلے گئے تھے
لیکن
تیری کھوج میں اب تک
میں اور جگنو بھٹک رہے ہیں
ہم نے ایک دوسرے کو رابطے میں رہنے کے وعدے پر خدا حافظ کہا۔ مصروفیت میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔۔۔آج دو برس بعد پھر اس سے ملاقات ہوئی۔ وہ کالج کے ویٹنگ روم میں بیٹھی تھی، کہنے لگی بیٹے کا ٹیسٹ دلانے آئی ہوں دعا کریں اس کالج میں اس کا داخلہ ہو جائے۔ یہ میرا خواب ہے۔ نمبر تو اس کے اچھے ہیں۔ تمہیں تو معلوم ہے اچھے کالج کی تعلیم کو مانا جاتا ہے۔
ہم دونوں کنٹین چلے آئے۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے اس نے بتایا کہ رضا آئے تھے، اکیلے نہیں، ان کے ساتھ دو بچے اور بیوی بھی تھی۔ آنے سے پہلے سسر نے مجھے ہوسٹل شفٹ ہونے کو کہا۔ بولے کہ ہم بیٹے کی زندگی میں کوئی تکلیف نہیں دیکھنا چاہتے، وہ صرف پندرہ روز کے لیے آ رہا ہے۔ میں حیرانگی سے ان کا منہ تکنے لگی یوں لگا میرے گرد زمین گھوم رہی ہے۔
ایک سوال مجھ سے جواب طلبی کر رہا تھا کہ میں کون ہوں اور میرا کون ہے؟ ساس سسر کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ آج وہ بھی میرا احساس نہیں کر رہے۔ میں نے ضروری سامان باندھا اور بچوں کو سمجھایا کہ باپ کا خیال رکھنا۔ میرا ذکر بھی ان کے سامنے نہیں کرنا۔ بچے بضد ہوئے کہ ہم بھی ساتھ چلیں گے۔ دادا دادی نے بھی نہ روکا۔ ان کے لیے مجھے ایک کمرے کا گھر کرائے پہ لینا پڑا، اور ہم چلے آئے۔ یہ کہتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بولی
وہ اتر گیا میری آنکھ سے
میرے دل سے وہ کیوں نہ اتر سکا
وہ چلا گیا جہاں چھوڑ کے
میں وہاں سے پھر نہ پلٹ سکا
وہ سنبھل گیا مگر آج تک
میں بکھر کے پھر نہ سمٹ سکا

ایک سوال مجھ سے جواب طلبی کر رہا تھا کہ میں کون ہوں اور میرا کون ہے؟ تصویر پکسابے

اسے تسلی دینے کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہ تھے۔ اس نے مجھے اپنے گھر کا ایڈریس دیتے ہوئے تاکید کی کہ ضرور آئیے گا اور وہ چلی گئی۔ ہمارے سامنے چائے رکھی ٹھنڈی ہو گئی اور ہم اس کی آنکھوں میں جھلکتی ہمت اور عزم دیکھتے ہوئے یقین سے بڑ بڑائے
فردا کا ہر اک خواب میری آنکھوں میں ہے ہر شب
اک  روز  اسے  ہونا  ہے  تعبیر  کہ  میں  ہوں
ہاں یہی سچ ہے کہ اکیسویں صدی کی عورت آج بھی وہی جدوجہد کر رہی ہے جس کے حصول کا چودہ سو سال پہلے اسلام کا وعدہ تھا۔ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے اس بھول میں ہے کہ اسے بہت حقوق حاصل ہیں۔ حقوق نسواں کے کھوکھلے نعروں پر وہ یقین کر بیٹھی ہے۔
جس گھر کی وزارت عظمیٰ پر وہ اتراتی ہے وہاں بھی اسے ایک پل میں نکلنے کا حکم دے دیا جاتا ہے اسے محبتوں سے بیاہ کر لانے والے اس کے وجود کے دشمن بن جاتے ہیں۔ وہ مجسم قربانی بنی سب کچھ سہتی چلی جاتی ہے، اپنے وجود میں بقا کی جنگ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتی۔
اس کی یہی کوشش رہتی ہے کہ شعور و لا شعور میں چلتی آندھیوں کا رخ موڑ کر خود کو منوا لے۔ ہم سفر کی خوشنودی کی خاطر وہ کیا کیا پا پڑ بیلتی ہے۔ وہ آج بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ بظاہر ہشاش بشاش اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتی اس مورتی میں جان ہے، جذبات ہیں، یہ بھی لائق محبت ہے، کسی کو سوچنے کی فرصت نہیں۔

شیئر: