Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پے پال نے پاکستان آنے کی درخواست مسترد کر دی

پے پال ہر سال اپنے روڈ میپ کا جائزہ لیتی ہے اور مستقبل میں کبھی پاکستان آنے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
حکومت کی طرف سے امریکہ جا کر  آن لائن ادائیگیوں کا نظام چلانے والی بین الاقوامی کمپنی پے پال کو پاکستان آمد پر راضی کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں اور کمپنی نے حتمی طور پر حکومت کو بتا دیا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں پاکستان میں اپنی سروسز نہیں لا رہی۔
اعلیٰ حکومتی حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ گذشتہ ماہ پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک وفد کمپنی کے ذمہ داروں سے مذاکرات کرنے امریکہ گیا تھا تاکہ کمپنی کو قائل کیا جا سکے کہ وہ اپنی خدمات پاکستان میں فراہم کرے۔
تاہم مذاکرات میں امریکی کمپنی نے حتمی طور پر وفد کو بتایا کہ اس کے تین سالہ روڈ میپ میں پاکستان کا ذکر نہیں ہے کیونکہ ملک میں کاروباری مواقع ناکافی ہیں۔ 
پاکستانی وفد نے پے پال حکام کو سٹیٹ بینک اور دیگر اداروں کی طرف سے مالی معاملات کی شفافیت اور سکیورٹی سے متعلق کیے گئے اقدامات سے آگاہ کر کے انہیں پاکستان میں مکمل سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔
پاکستان کے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سربراہ شباہت علی شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کی پوری کوشش تھی کہ پے پال پاکستان آئے اپنی سروسز کو یہاں رجسٹر کرائے تاکہ جو پاکستانی باہر سے اپنی آمدن حاصل کرتے ہیں انہیں رقوم منگوانے میں آسانی ہو تاہم ایسا نہ ہو سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ پے پال ہر سال اپنے روڈ میپ کا جائزہ لیتی ہے اور مستقبل میں کبھی پاکستان آنے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے مگر فی الحال ایسا نہیں ہو پایا۔
فری لانسر اور ای کامرس سے وابستہ افراد کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ پے پال کو پاکستان لایا جائے۔ اس سے قبل اسی حکومت کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی پے پال کو پاکستان لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا مگر ان کی کوششیں بھی ناکام رہی تھیں۔

پے پال کی سہولت نہ ہونے سے پاکستانی فری لانسرز کو مشکلات کا سامنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

آن لائن دنیا میں پے پال کو رقوم کے لین دین کے حوالے سے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ یہ ایک طرح سے کسی صارف کا ذاتی بین الاقوامی بینک اکاؤنٹ ہوتا ہے۔
 پے پال پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا سمیت دنیا بھر کے 200 سے زائد ممالک میں شہریوں اور مختلف کاروباریوں کو رقوم بھیجنے اور وصول کرنے کی خدمات فراہم کرتی ہے۔
 کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر کے قریباً 10 کروڑ افراد معاوضے اور رقوم حاصل کرنے کے لیے یہ سروس استعمال کرتے ہیں۔ 
اس سروس کو قریباً دو دہائیوں سے آن لائن رقوم کی ترسیل کا اہم طریقہ مانا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں کروڑوں آن لائن شاپنگ مالز اس سروس کے گاہک ہیں۔ یہ اپنے گاہگوں سے رقم کی ترسیل کا بہت معمولی معاوضہ لیتی ہے۔

انٹرنیشنل پے منٹ گیٹ وے، پاکستان کی اگلی امید

نیشنل آئی ٹی بورڈ  کے سربراہ نے بتایا کہ پے پال کے انکار کے بعد بھی حکومت مایوس نہیں ہے اور اس وقت حکام پاکستان میں انٹرنیشنل پے منٹ گیٹ وے کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں جو پے پال، ماسٹر کارڈ، علی پے اور ویزا کے ساتھ منسلک ہوگا۔

پے پال کی جگہ اب پاکستان ایک متبادل سروس متعارف کرانے پر غور کر رہا ہے (فوٹو: سبق)

شباہت علی شاہ پُرامید ہیں کہ فروری تک گیٹ وے کا قیام عمل میں آجائے گا جس کے بعد بیرون ملک سے پے پال کے پاکستان آئے بغیر بھی پاکستان میں ادائیگیاں ممکن ہو سکیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ گیٹ وے کے قیام کے لیے دو تین بین الاقوامی کمپنیوں سے بات چیت چل رہی ہے اور اخراجات کے اشتراکی ماڈل کے ساتھ حکومت ان کمپنیوں کو بعد میں ادائیگی کرے گی۔
ماہرین کے خیال میں پے پال اگر پاکستان آنے پر رضامند ہو جاتی تو اس سے ایک تجارتی اور کاروباری انقلاب آنے کے امکانات تھے کیونکہ ملک کے طول و عرض میں کاروباری شخصیات اور اجناس فروخت کرنے والے افراد براہ راست بین الاقوامی منڈی سے منسلک ہو جاتے اور زرمبادلہ بھی آنا شروع ہو جاتا۔

پاکستانی فری لانسرز متاثر

پاکستانی فری لانسرز کی نمائندگی کرنے والی تنظیم پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن (پاشا) کے سیکرٹری جنرل شہریار حیدری کے مطابق پے پال سروس نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے تقریباً تین لاکھ کے قریب فری لانسرز اور متعدد کاروباری افراد اور ادارے اپنی مصنوعات اور خدمات کو بیرون ملک آسانی سے فروخت نہیں کر پا رہے۔

دنیا بھر میں آن لائن کاروبار بڑھ رہا ہے (فوٹو: یو گوو)

’حکومتی و مقامی سطح پر ادائیگیوں کے لیے بنائے گئے نظام پے پاک اور پرائیویٹ ادائیگیوں کے نظام جیسے ایزی پیسہ وغیرہ کی بدولت لوگوں کے لیے آن لائن کاروبار کرنا آسان ہے مگر بین الاقوامی سطح پر پاکستانی فری لانسرز کو پیسوں کی وصولی میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے اور دیگر خدشات کے باعث بیرونی ممالک سے خریدار پاکستانیوں کے اکاؤنٹس میں براہ راست پیسے بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ ایسی صورت میں پے پال جیسی سروس ہوتی تو ایمیزون اور ای بے سمیت اہم ویب سائٹس پر پاکستانی برآمد کنندگان آسانی سے اپنی اشیا اور خدمات بیچ کر قیمتی زرمبادلہ حاصل کر پاتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پے پال کی عدم موجودگی میں لوگ یا تو اپنے بیرون ملک رشتے داروں کے اکاؤنٹس میں پیسہ منگواتے ہیں یا پھر اپنے گاہکوں کو فری لانسرز کی خصوصی ویب سائٹ پر اکاؤنٹ بنا کر پیسہ بھیجنے کا کہتے ہیں جس سے کئی گاہک متفق ہی نہیں ہوتے۔

دنیا کے بیشتر بڑے آن لائن مال رقوم کی لین دین کے لیے پے پال استعمال کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ماہرین کے مطابق پاکستان میں پے پال جیسی سروسز کو لانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی ادائیگیوں کے ڈھانچے کو جدید بنائے اور اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 20 کروڑ سے زائد آبادی میں پانچ کروڑ 56 لاکھ افراد نے اپنے بینک اکاؤنٹس بنوا رکھے ہیں۔
سرکاری حکام کے مطابق ملک میں کریڈٹ کارڈز کی مجموعی تعداد 14 لاکھ ہے جبکہ ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد دو کروڑ 17 لاکھ ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر:

متعلقہ خبریں