Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سوال حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ چاہتے ہیں عدالت چار ماہ آئین معطل کر دے؟‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ ملک کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث افراد کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے تاہم ہزاروں افراد کو حراستی مراکز سے رہا کیا گیا ہے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ’عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ میں فاٹا پاٹا ایکٹ اور حراستی مراکز سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سیعد کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ ’حراستی مراکز میں کسی کو تین ماہ تک رکھا جا سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’اس طرح تو کسی کو بھی ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا کر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جائے گا۔ نئے قانون میں کسی کو حراست میں رکھنے پر نظرثانی کا نقطہ نکال دیا گیا ہے۔
انھوں نے استفسار کیا کہ ’اس وقت کے پی میں بحالی امن کے لیے کون سا قانون نافذ ہے؟‘ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’کے پی میں اس وقت 2011 کا ایکٹ نافذ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 2011 کا قانون وفاقی ہے جو صدر نے نافذ کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’صدر نے قانون فاٹا میں رائج کیا تھا جو اب ختم ہو چکا تو اس میں رائج قانون کیسے برقرار ہے؟‘ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’فاٹا میں رائج قانون اب صوبائی قوانین بن چکے۔ جو نیا قانون ڈرافٹ کر رہا ہوں اس میں سب کچھ شامل کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا  کہ 25ویں آئینی ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ دینا ضروری تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)

جسٹس قاضی عیسی نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل کا کام قانون بنانا کب سے ہو گیا؟ قانون بنانے کے لیے وزارت قانون موجود ہے۔ نیا قانون جب بن کر عدالت کے سامنے آئے گا تب دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’کیا صوبائی اسمبلی قانون بنا کر وفاقی قانون کو ختم کر سکتی ہے؟ اگر 2011 کا قانون موجود ہے تو بات صرف حراست کا جائزہ لینے کی رہ جاتی ہے۔ عدالت نے آئین کے مطابق چلنا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ ’حراستی مراکز میں کتنے لوگ زیر حراست ہیں؟‘ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’ابتدا میں یہ تعداد ہزاروں میں تھی لیکن اب ایک ہزار کے قریب لوگ ہیں۔ کئی ہزار افراد آباد کاری اور ذہنی بحالی کے بعد رہا ہو چکے ہیں۔ کئی ہزار افراد کو جرم ثابت نہ ہونے پر بھی رہا کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ایک طرف شہریوں کا وقار دوسری جانب ریاست کی بقا کا سوال ہے۔ 2011 کے قانون میں سقم حراست کا ریویو نہ ہونا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ایک طرف شہریوں کا وقار دوسری جانب ریاست کی بقا کا سوال ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

اس سے قبل سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ’حراستی مراکز کیوں قائم کیے گئے اس حوالے سے عدالت کو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا آپ دکھانا چاہتے ہیں زیرحراست لوگ بہت خطرناک ہیں؟ ملک دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’کیا یہ وہی ویڈیو ہے جو 2015 میں بھی عدالت کو دکھائی گئی تھی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں وہ حراستی مراکز کی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’21 ویں ترمیم کے بعد اس سے متعلق کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ نے 21ویں ترمیم جلد بازی میں منظور کی۔ فاٹا پاٹا میں دہشت گرد، کالعدم تنظیمیں اور نان سٹیٹ ایکٹرز موجود رہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ’کالعدم تنظیموں کے ساتھ حراستی مراکز بھی موجود تھے۔ کیا 2008 سے آج تک حراستی مراکز کی قانونی حیثیت چیلنج ہوئی؟‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’حراستی مراکز کی قانونی حیثیت سے متعلق یہ پہلا کیس ہے۔ حراستی مراکز سمیت دیگر نکات پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے۔ تین سے چار ماہ میں نیا قانون بن کر نافذ ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ چاہتے ہیں عدالت چار ماہ آئین معطل کر دے؟‘ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت سے صرف نئے قانون کی نفاذ تک کی مہلت مانگ رہا ہوں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ نے 21ویں ترمیم جلد بازی میں منظور کی (فوٹو: سوشل میڈیا)

چیف جسٹس نے کہا کہ ’25ویں آئینی ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ دینا ضروری تھا۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ’آپ نے ہمیں کوئی ویڈیو دکھانی تھی؟ ویڈیو کس حوالے سے ہے؟ 21ویں ترمیم کے مقدمات میں سانحہ اے پی ایس کی ویڈیو دکھائی گئی تھی۔ کوئی ایسی ویڈیو نہ دکھایے گا جس سے ذہن متاثر ہوتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں وہ حراستی مراکز کی ہے۔ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم عالمی معیار کی طرف جا رہے ہیں۔‘ جس پر چیف جسٹس نے یہ کہتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کر دی کہ ’آپ ہمیں اپنے آئین میں فٹ کر لیں یہی کافی ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: