Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تم جیتو یا ہارو ۔۔۔ اب کوئی فرق نہیں پڑتا

پاکستانی ٹیم کبھی بھی کچھ بھی کرسکتی  ہے۔ فائل فوٹو: سوشل میڈیا
ہمیں کرکٹ دیکھنے کا قطعی شوق نہیں تھا مگر بھلا ہو ہمارے بھائی کا جنہوں نے ہمیں میچز دیکھنے کا چسکا لگا دیا، بلکہ اگر یہ کہا کہ جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بھائی صاحب نے ہمیں پاکستانی ٹیم کا ہر میچ دیکھنے کا پابند بنا دیا۔
جب کبھی انہیں باہر کسی کام سے جانا پڑتا وہ ہمیں ریموٹ  دے کر جاتے اور تاکید کرتے کہ ہمیں کال یا میسج پر ایک ایک بال کا احوال بتانا اورخبردار جو چینل تبدیل کیا۔ جس پر ہمارا کہنا ہوتا تھا کہ اگر پاکستانی ٹیم میچ ہار رہی ہو تو ہمیں چینل تبدیل کرنے کا حق دیا جائے تاکہ کم از کم  ہمیں اپنا پسندیدہ ڈرامہ دیکھنے کا موقع تو ملے۔
ٹیم کی ہار جو کہ اکثر ہی شکست سے دوچار ہوتی ہے۔ اس کا غم تو غلط کر پائیں گے لیکن ہمارے جلاد صفت بھائی صاحب کو یہ بھی منظور نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم کبھی بھی کچھ بھی کرسکتی  ہے اور پھر ہمیں یہ جملہ رٹ گیا اور ٹیم کی کبھی کبھار اتفاقی جیت ملنے پر اس جملے پر یقین کر لیتے تھے۔ 
کبھی تو بھائی کو یہ بھی مشورہ دیتے تھے کہ آپ میچ نہ دیکھیں۔ کل صرف خبروں میں دیکھیں گے تو ٹیم نے میچ جیت لیا ہوگا لیکن ہمارے بھائی کو ہمارا یہ مشورہ کبھی نہ بھایا۔ وہ ون ڈے تو کیا ٹیسٹ میچز کی ایک ایک بال بھی شوق سے دیکھتے تھے اور ہم بیچارے اپنا پسندیدہ ڈرامہ دیکھنے کی آس میں ٹی وی کے سامنے ٹکے رہتے کہ کہیں شاید بھائی صاحب کو رحم آجائے اور وہ ریموٹ دے دیں۔
لیکن یہ تو صرف ایک دیوانے کا خواب تھا۔

کپتان تبدیل ہوتا ہے مگر نہیں بدلتی تو کھلاڑیوں کی پرفارمنس نہیں بدلتی۔ فائل فوٹو: پکسابے

بھائی کا ساتھ دینے کے لیے ہم بھی میچ کی ایک ایک بال دیکھتے۔ ساتھ ساتھ جمائیاں لیتے جاتے۔ یہاں ایک اور بات بتاتی چلوں بھائی نے میچ دیکھنے کے ساتھ ساتھ ہماری ایک اور بھی ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی کہ جب ابو آئیں تو ان کو میچ دیکھنے کے لیے قائل کرنا ہے۔ انہیں ہر گزسپورٹس چینل تبدیل نہ کرنے دیا جائے، کیونکہ ابو تو ہر وقت خبریں دیکھتے رہتے ہیں۔ چاہیں بار بار ایک جیسی نیوز نشر ہوں یا پھر کوئی بھی تجزیہ کار بیٹھا ہو۔ ہمارے ابا ان کو بڑے ہی شوق سے سنتے ہیں۔
صبح سے رات نو بجے تک چینل کی ریٹنگ بڑھاتے رہتے ہیں۔ اب ابو کو چینل نہ بدلنے کی منت کا کام بھی ہمیں سونپا گیا، یہ کام کرنے کے لیے ہم ابو جی کے لیے کئی بار چائے بناتے۔ پھر جا کر وہ مانتے۔ لیکن شرط یہ ہوتی تھی کہ آواز بند کرکے میچ دیکھیں۔ اب ابو کو کون بتائے کہ آواز بند کرکے میچ کون دیکھتا ہے۔ جو مزہ رمیز راجہ اور دیگر کی کمینٹری سن کر میچ دیکھنے کا ہے، وہ مزہ بھلا خاموش میچ میں کیسے ہوسکتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی شرط رکھی جاتی کہ کوئی کمنٹ نہیں کرنا۔ مطلب کوئی آؤٹ ہو کوئی چھکا لگائے۔ اس پر تو بے ساختہ ردعمل آتا ہے۔ اس پر بھی قابو پانا ہے۔ میچ دیکھنے کے لیے اتنی مشکل شرائط؟
اور تو اور یہ بھی کہا جاتا کہ ٹیم کے لیے دعا کرنی ہے تو وہ بھی چپکے سے کرنا۔ اگر ٹیم کی ہار پر رونا آئے تو دل میں رو لینا۔ اب آپ کو تو معلوم ہے پاکستانی ٹیم تو آسان ٹیم سے بھی میچ کو سنسنی خیز بنا دیتی ہے۔ ایسے میں میچ کے اتار چڑھاؤ میں  کئی بار ایسے مراحل آتے ہیں کہ کبھی تو بہت ہنسنے کا دل چاہتا ہے کبھی رونے کا۔
ان جذبات کو کنٹرول کرنا ہےغرض ہمارے بھائی نے ہمیں پاکستان کا ہر میچ دیکھنے کا عادی بنا دیا۔ یہاں تک کہ اب ہمیں ڈراموں کے بجائے میچ دیکھنے کی بے تابی ہوتی، یہاں تک ہم ڈراموں کو بھی بھول جاتے۔

فائٹ کرکے ہاریں تب بھی کوئی بات ہو۔ فائل فوٹو: پی سی بی

اور تو اور اگر ٹیم ہارنے کی جانب گامزن ہوتی تو رو رو کر دعائیں کرتے۔ ایسے میں امی ابا دیکھتے تو کہتے بیٹا کیا ہوا بھائی نے مارا ہے کیا؟ جس پر ہمارا جواب نفی میں ہوتا۔ پھر امی ابو کہتے کیوں رو رہی ہو؟ جواب ہوتا پاکستانی ٹیم کے لیے۔ اس بات پر امی ابو ہمیں غصے سے گھورتے۔ ان کا کہنا ہوتا کہ ان مشٹنڈوں کے لیے رو رہی ہو؟ جو خود میچ جیتنے کی کوشش تک نہیں کرتے۔ ایک آؤٹ ہوتا ہے تو باقیوں کی لائن لگ جاتی ہے۔
یہ تو کبھی فائٹ بھی نہیں کرتے۔ فائٹ کرکے ہاریں تب بھی کوئی بات ہو۔ ٹیم میں تو کوئی میچ ونر کھلاڑی ہی نہیں۔ اتنی دعائیں مانگنے کے بعد بھی ٹیم بری طرح ہار جاتی تو ہم سوچتے کاش کوئی اور دعا مانگ لیتے۔ یہ لوگ تو دوا ہی نہیں کرتے تو ان کے لیے دعا کیسے کام کرے گی؟
ہر سیریز کی ہار کے بعد ہم نئی سیریز میں جیت کی آس لگاتے اور اس میں بھی مایوسی کا منہ دیکھنا پڑتا تو پھر ٹی 20 ورلڈکپ میں جیت کی امید لگاتے۔ پھر 50-50 اوورز کے ورلڈ کپ میں فتح کی دعائیں مانگتے۔
اپنی دوستوں سے شرط لگاتے، دیکھنا اس بار کپ ہمارا ہی ہوگا۔ ہمارا یہ جوش و جذبہ دیکھ کر وہ ایسے مسکراتیں جیسے کہہ رہی ہوں بہت جلد تمہاری یہ خوش فہمی دور ہوجائے گی۔ ایسے میں کبھی ٹیم سیمی فائنل اور فائنل میں پہنچتی تو ہمیں اور جوش آجاتا۔ جیسے ہی آخری مرحلے میں ا ٓکر پھر ہار جاتے تو ہماری دوست ہمیں ایسے دیکھتیں جیسے کہہ رہی ہوں، دیکھا ہم نے تو کہا تھا یہی ہوگا، اب شکست پر دکھی آتما بنی رہو۔۔ اور وہ بھی کئی روز تک ۔۔۔
پھر ان حالات کے بعد ہم روز تہیہ کرتے کہ اب میچ نہیں دیکھیں گے۔ خاص طور ورلڈ کپ میں پاکستان انڈیا میچ نہیں دیکھیں گے۔ جس میچ پر پاکستان اور انڈیا کا میڈیا سب کچھ چھوڑ کر صرف میچ کو ہی کوریج دیتا تھا لیکن  ٹیم کی ہار کے بعد میڈیا ہار کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا اور بیچارے ہم کرکٹ لورز کے زخموں پر نمک چھڑتا رہتا تھا۔
سوشل میڈیا پرالگ بحث چھڑی ہوتی تھی۔ ہر کھلاڑی پر میمز بن رہی ہوتی تھیں۔ اب نہ انسان ٹی وی دیکھےاور نہ سوشل میڈیا وزٹ کرے، اوہ اب کیا کریں۔ کئی روز بعد جب اس قصے کو بھول بھال کر کسی نئی کہانی کا چرچا ہوتا تب جا کر سوشل میڈیا کا رخ کرتے۔ ہم اس معاملے میں جواد احمد کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ’تم جیتو یا ہارو‘ گا کر ہماری مشکل آسان کردی ہے۔
جیسے ہی ٹیم ہارتی تو سٹیٹس لگاتے ’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘ لیکن  ہر بار کوئی بھی شکست کی ذمے داری قبول نہیں کرتا نہ کوئی خراب پرفارمنس پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتا ہے۔ اتنی ناقص کارکردگی پر سبھی کھلاڑی اور ٹیم مینجمنٹ اپنے عہدوں پر جمی رہتی ہے۔ ان تمام غلطیوں کے بعد بھی وہی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں، وہی سلیکشن دہرائی جاتی ہے اور ایک بار پھر اکثر بیٹنگ لائن دغا دے جاتی ہے۔
کروڑوں روپے پر نئے نئے کوچز تعینات کیے جاتے ہیں۔ کوچ بدل جاتا ہے۔ کپتان تبدیل ہوتا ہے مگر نہیں بدلتی تو کھلاڑیوں کی پرفارمنس نہیں بدلتی۔ اب آسٹریلیا کے ہاتھوں ٹی 20 سیریز اور ٹیسٹ سیریز میں ہار کے بعد ایک مرتبہ پھر ارادہ کیا ہے کہ اب میچ نہیں دیکھیں گے۔۔اب ٹیم  ہارے یا جیتے ہماری بلا سے۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: