Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پانچ برس میں والد نے دس رشتے ٹھکرا دیے‘

عائلی امور کی عدالت نے شادی کی پابندی کے واقعہ کانوٹس لیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سعودی عرب کے معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ بیٹیوں کے رشتے مسترد کرنے کا ہے۔ اسے سعودی معاشرے میں ’عضل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بعض والدین برسہا برس تک اپنی بیٹیوں کے رشتے نہیں کرتے۔ بیٹی اپنے باپ کے گھر بغیر شادی کے بیٹھی رہ جاتی ہے۔ 
معمر کنواریوں کی شادی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ زیادہ عمر ہوجانے پر رشتے آنا بند ہوجاتے ہیں۔
اخبار 24 کے مطابق کئی سعودی لڑکیوں نے اپنے باپ کے اس رویے کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔

معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ بیٹیوں کے رشتے مسترد کرنے کا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
 

ایک لڑکی کا کہنا ہے’ اب میری عمر 37 برس ہوچکی ہے۔ ملازمت کرتی ہوں۔ والد صرف میری تنخواہ پر حق رکھنے کے لیے رشتے سے منع کردیتے ہیں۔ عجیب و غریب قسم کے بہانے بنا کر رشتے مسترد کرنے میں انہیں کمال حاصل ہے‘۔
’میرے والد نے ایک رشتہ صرف اس لیے مسترد کیا کہ لڑکے کی تنخواہ سات ہزار ریال تھی۔ دوسرا رشتہ اس لیے ٹھکرا دیا کہ وہ بہت دور دراز علاقے میں رہتا ہے۔ تیسرا رشتہ یہ کہہ کر منع کیا کہ اس کی ڈگری یونیورسٹی کی نہیں ۔ چوتھا رشتہ یہ کہہ کر واپس کردیا کہ وہ ایک شادی کرکے طلاق دے چکا تھا‘۔
جدہ کی ایک لڑکی نے بتایا’ پانچ برس کے دوران اس کے والد نے اس کے دس رشتے ٹھکرادیے۔ اب اس کی عمر 35 برس ہوچکی ہے‘۔
سعودی لڑکی کے مطابق حال ہی میں مجھے پتہ چلا کہ اپنی شادی خود کرسکتی ہوں۔ یہ میرا حق ہے اسی لیے عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب میری شادی کا اختیار والد سے لے کر عائلی امور کی عدالت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ امید ہے میرے اس اقدام کو نافرمانی کے خانے میں نہیں ڈالا جائے گا‘۔
مکہ میں عائلی امور کی عدالت نے ایک مطلقہ خاتون پر شادی کی پابندی کے واقعہ کا نوٹس بھی لیا ہے۔
یاد رہے کہ اعلیٰ عدالتی کونسل نے لڑکیوں کی شادی پر قدغن لگانے والے والدین کے حوالے سے ایک اہم ضابطہ مقرر کیا ہے۔
ضابطے کے مطابق’ اگر کوئی لڑکی عدالت میں یہ مقدمہ لے کر آئے گی کہ اس کا باپ جان بوجھ کر اس کے رشتے ٹھکرا رہا ہے اوراسے شادی سے روک رہا ہے تو اس کا مقدمہ 30 دن کے اندر نمٹانا ضروری ہوگا‘۔
’کوئی بھی لڑکی اپنے باپ کے خلاف عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔ اگر باپ نہ ہو اور ا س شادی کے ذمہ دار اس کے بھائی وغیرہ ہو ں تو وہ ان کے حوالے سے بھی عدالت سے رجوع کرسکتی ہے‘۔ 

شیئر: