Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تصویریں بناتے آنکھوں میں پانی بھر آیا‘

ہسپتال کے باہر پورے شہر میں پرتشدد جلاؤ گھیراؤ جاری تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
27 دسمبر بظاہر عام سا دن تھا لیکن خاص بات یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں راولپنڈی آ رہے تھے۔ میں دفتر بیٹھا بے نظیر بھٹو کے لیاقت باغ جلسے کی کوریج کے لیے جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ میرے دوست ایک انگریزی اخبار کے سینئیر فوٹو جرنلسٹ نوید اکرم کا فون آ گیا۔
وہ نواز شریف کی کوریج پر مجھے ساتھ لے جانا چاہتا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ہاں کر دی اور اپنے ساتھی فوٹو گرافر کو بے نظیر جلسے کی جانب بھجوا کر میں نوید اکرم کی گاڑی میں کُری روڈ روانہ ہو گیا جہاں نواز شریف نے ریلی کی شکل میں آ کر جلسے سے خطاب کرنا تھا وہاں پہنچ کر ہم  نے ایک موزوں جگہ پر اپنا ’مورچہ‘ سنبھال لیا۔
گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی آواز سن کر ہم چونک گئے۔ اگرچہ آواز بہت دور سے آئی تھی لیکن کری روڈ پر بھی خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ متضاد افواہیں سننے کو مل رہی تھیں۔ لیکن دراصل خبر یہ تھی کہ نواز شریف کی ریلی پر دور سے فائرنگ کی گئی تھی۔ ہم چوکنے ہو گئے۔ شاید کچھ بڑا ہونے والا تھا کچھ دیر بعد نوید اکرم کے موبائل پر گھنٹی بجی جس نے ہمارے دماغ میں بھی گھنٹیاں بجا دیں۔
ابتدائی اطلاع یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ میں فائرنگ کر دی گئی ہے جس سے وہ شدید زخمی ہو گئی ہیں۔ چند لمحے کو تو ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ بعد میں خودکش حملے کی خبر بھی مل گئی۔ میں لیاقت باغ جانے کے لیے بضد تھا مگر نوید کے مطابق وہاں دیگر فوٹو گرافرز موجود ہیں، ہمیں جنرل ہسپتال جانا چاہیے، جہاں اطلاع کے مطابق بے نظیر بھٹو کو لے جایا گیا تھا اور نوید نے گاڑی کا رخ جنرل ہسپتال کی جانب کر دیا۔

ہسپتال میں کارکن گڑگڑا کر اپنی قائد کی زندگی کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

 ایمرجنسی سے لے کر آپریشن تھیٹر تک ہسپتال پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ سخت سردی کے باوجود گھٹن ہو رہی تھی۔ کارکنوں کی اکثریت دھاڑیں مار کر رو رہی تھی اور بعض گرگڑا کر اللہ سے بے نظیر بھٹو کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔اس وقت تک ہماری طرح وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ بی بی اپنے مرحوم بھائیوں اور والد کے پاس جا پہنچی ہیں۔
تھوڑی دیر بعد خبر پھیل گئی کہ بے نظیر  ہلاک ہو چکی ہیں۔ کارکنوں کے گریہ و آہ و زاری میں اضافہ ہو گیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے بھی آپریشن تھیٹر سے باہر آ کر بے نظیر بھٹو کے ہلاک ہونے کی تصدیق اور کارکنوں کو پرامن رہنے کی تلقین کی۔
بھٹو زندہ تھا اور اس کی بیٹی قتل کر دی گئی تھی۔ دور سیڑھیوں پر کھڑے تصویریں بناتے میری آنکھوں میں بھی پانی بھر آیا۔ نوید اکرم نے آپریشن تھیٹر کے پاس کھڑے امین فہیم اور پولیس کے ایک افسر سے کئی مرتبہ اندر جا کر تصویر بنانے کی اجازت طلب کی مگر جانے نہیں دیا گیا۔ چند منٹوں بعد خبر ملی کہ نواز شریف اپنا جلسہ منسوخ کر کے جنرل ہسپتال آ گئے ہیں اور ہم باہر کی جانب بھاگے۔
نواز شریف کی گاڑی ایمرجنسی کے باہر رکی تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اسے گھیر لیا۔ بلاشبہ نواز شریف کا ایسے ماحول میں وہاں آ جانا دلیرانہ اقدام تھا، پیپلز پارٹی کے کارکن شدید غم و غصے میں تھے۔ اگرچہ سیاستدان چہرے کے تاثرات چھپانے کے عادی ہوتے ہیں لیکن نواز شریف کا چہرہ اس وقت کرب سے بھرا ہوا تھا اور آنکھیں بھی نم تھیں۔ نواز شریف تھوڑی دیر وہاں رک کر واپس چلے گئے اور ہم دوبارہ اندر جا کر سیڑھیوں پر کھڑے ہو گئے۔جان لیوا انتظار کے بعد بالآخر درواز کھلا اور ایک لکڑی کا بند تابوت دکھائی دیا۔
بے نظیر بھٹو کا جسد خاکی اسی میں تھا۔ ان کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان بھی تابوت کے ساتھ ہی باہر آئیں تابوت کے باہر آتے ہی کہرام مچ گیا کارکن تابوت کو تھام تھام کر یوں دھاڑیں مار رہے تھے جیسے ان کی حقیقی ماں قتل کر دی گئی ہو۔

نواز شریف ہسپتال پہنچے تو ان کا چہرہ کرب سے بھرا ہوا اور آنکھیں نم تھیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ہسپتال کے باہر پورے شہر میں پرتشدد جلاؤ گھیراؤ جاری تھا ۔ جگہ جگہ ٹائر جلائے جا ہے تھے۔ گاڑیاں نذر آتش کی جا رہی تھیں اور فائرنگ کی آواز وقفے وقفے سے گونج رہی تھی۔ مری روڈ پر احتجاج کی آڑ میں بعض شر پسند عناصر بینک کی اے ٹی ایم مشین اکھاڑنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ چاندنی چوک کے قریب ایک بیکری میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ اسی اثنا میں دو پولیس اہلکار جلتی ہوئی بیکری سے نکل کر بھاگتے دکھائی دیے۔ ان کے ہاتھوں میں پیسٹریوں کی ٹرے تھی۔
شاید صبح سے خالی پیٹ ڈیوٹی دیتے دیتے پیٹ کی آگ اس آگ پر بھی غالب آ گئی تھی۔ ان کے علاوہ ہمیں کہیں باوردی پولیس دکھائی نہ دیے، شاید حملوں کے خدشے کے پیش نظر انہیں انڈر گراؤنڈ ہونے کا حکم ملا تھا۔ میں اور نوید بچتے بچاتے کوریج کر کے اپنے اپنے دفتر پہنچ گئے۔

ٹی وی پر بے نظیر بھٹو کے کئی ناقد اب بڑھ چڑھ کر ان کی خوبیاں بیان کر رہے تھے

وہاں بھی جیسے بھونچال آیا ہوا تھا ۔ میرا ساتھی فوٹو گرافر بھی دفتر میں موجود تھا جس نے بے نظیر بھٹو کا یہ آخری تاریخی جلسہ کور کیا تھا، اس نے بتایا فوٹو گرافرز اس خود کش حملے سے یوں معجزاتی طور پر بچ گئے کہ حملے کی جگہ سے چند فٹ کے فاصلے پر واقع اکبر ہوٹل میں ایک تقریب ہو رہی تھی اس لیے سبھی فوٹو گرافرز بےنظیر کا خطاب ختم ہونے پر ہوٹل چلے گئے اور چند منٹ بعد ہی دھماکہ ہوا۔ وہ بھاگتے ہوئے باہر نکلے تو باہر کشت و خون برپا تھا اور انہوں نے وہ مناظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیے۔
بے نظیر بھٹو کی زندگی کے آخری جلسے کی کوریج نہ کر پانے کا دکھ اپنی جگہ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نوید اکرم کی کال نے اس دن اسے اور مجھے بھی زندگی بخشی وگرنہ نوید اور میں اگر موجود ہوتے تو یقینی طور پر بے نظیر کی آخری لمحے تک کوریج کرنے کی کوشش کرتے اور پھر شاید بے نظیر و دیگر کارکنوں کے ساتھ نشانہ بن جاتے لیکن سچ یہ ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے۔

بے نظیر کی موت کی خبر ملتے ہی ملک کے مختلف حصوں میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے: فوٹو اے ایف پی 

رات گئے مظاہرین سے بچتے بچاتے تھکا ہارا گھر پہنچا تو بیوی کو بھی غمگین پایا۔ ٹی وی پر بے نظیر بھٹو کے کئی ناقد اب بڑھ چڑھ کر ان کی خوبیاں بیان کر رہے تھے۔ شاید ہمارے ہاں خود کو منوانے کے لیے قتل ہونا لازم ہے۔ بے نظیر کی جلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر جہاز کی سیڑھیاں اترتے ہوئے دعا مانگتے وقت آبدیدہ ہوجانے کی ویڈیو بار بار دکھائی جا رہی تھی۔ بیک گراونڈ میں عابدہ پروین کے گائے کلام کے الفاظ گونج رہے تھے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: