Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’قائد کو تو سکون سے سونے دیں‘

’جو جی چاہے ریاست کے ساتھ کریں مگر قائدِ اعظم کے تصورِ پاکستان کو بخش دیں۔‘ فوٹو اے ایف پی
کل 25 دسمبر کو قائدِ اعظم محمد علی جناح  کے یومِ پیدائش  کے موقع پر میں نے اوپر تلے جتنے بھی سرکاری بیانات سنے ان میں ایک جملہ مشترک تھا ۔ ’ہم پاکستان کو عمران خان کی قیادت میں قائدِ اعظم  کا پاکستان بنانے کے لیے مسلسل بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‘
چونکہ حسنِ اتفاق سے 25 دسمبر کو کرسمس بھی آ جاتا ہے لہٰذا تہنیتی پیغام میں یہ جملہ بھی بڑھانا پڑتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تمام آئینی حقوق بلا امتیاز حاصل ہیں۔
چونکہ نواز شریف بھی 25 دسمبر کو پیدا ہو گئے تھے لہٰذا حزبِ اختلاف مسلم لیگ ن  بھلے اقتدار میں ہو یا اقتدار سے باہر اسے یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ قائدِ اعظم جیسا پاکستان چاہتے تھے وہ صرف میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں ہی بن سکتا ہے۔
میں نے ہوش ایوب خان کے دور میں سنبھالا تب سے اب تک یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف سمیت ہر فوجی اور بھٹو سے لے کر عمران خان سمیت ہر شیروانی حکمران 25 دسمبر کو ضرور ویسا پاکستان بنانے کی کوششوں میں اپنی بھرپور شرکت کا دعویٰ کرتا ہے جیسا قائدِ اعظم چاہتے تھے۔
اگر میں یہ تمام دعوے درست مان لوں تو پھر قائدِ اعظم غالباً ایسا پاکستان بنانا چاہتے تھے جس میں ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول پر استوار جمہوریت کے ساتھ ساتھ بنیادی جمہوریت، اسلامی سوشلزم، مارشل لا، نفازِ شریعت اور نیم شرعی و نیم مغربی نظام کی یکساں گنجائش ہو۔ آئین کبھی صدارتی، کبھی پارلیمانی یا پھر ان دونوں نظاموں کا ملغوبہ ہو۔
آئین ایک ایسی ٹھوس بنیاد ہو جس پر ریاست کی عمارت ٹکی رہے اور موم کی ناک جیسا بھی ہو جسے ہر حکومت  جس سمت چاہے گھما لے۔آرٹیکل چھ سمیت آئین کی ہر شق پتھر کی لکیر بھی ہو اور میر و غالب کے مصرعے کی طرح  لچکیلی بھی ہو کہ جس میں ہر کسی کی مرضی کا ایک جہانِ معانی و تشریحات کا خزانہ پوشیدہ ہو۔ ایک ایسا جامع آئین جو منتخب حکومت کے لیے بھی زود ہضم ہو اور آمریت کے لیے بھی فرحت بخش۔

’پاکستان کو عمران خان کی قیادت میں قائدِ اعظم  کا پاکستان بنانے کے لیے مسلسل بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‘ فوٹو اے ایف پی

قائدِ اعظم شائد ایک ایسی وفاقی ریاست چاہتے تھے جس میں صوبائی خود مختاری کو بھرپور تحفظ حاصل ہو اور مرکز بھی مضبوط ہو۔ یعنی وفاق اور وفاقی یونٹ چیونگم کی طرح  ہوں۔ کبھی اس چیونگم  کا پھول بن جائے، کبھی مرغا اور کبھی رنگ برنگا مکاؤ طوطا۔
قائدِ اعظم غالباً ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں مسلح افواج کی قیادت صرف جغرافیائی سرحدوں  کے تحفظ کی پابند ہو اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا کام منتخب جمہوری قیادت پر چھوڑ دے۔ البتہ مناسب سمجھے تو جغرافیائی کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا کام بھی سنبھال لے۔ سیاسی امور میں مکمل غیر جانبداری کا حلف بھی اٹھائے مگر جب سیاسی قوتوں میں جوتم جوتا ہو جائے تو ثالث کا کردار بھی ادا کرے۔ حالات کا تقاضا ہو تو باس بن جائے اور حالات کا تقاضا نہ ہو تو پھر ماتحت یا بادشاہ گر کا کردار سنبھال لے۔
اگر تہتر برس میں قائد اعظم کی خواہشات کے عین مطابق پاکستان بنانے کے تمام دعویداروں کی سچائی کو آنکھ بند کر کے قبول کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قائدِ اعظم ایک ایسا سیاسی نظام چاہتے تھے جس میں منتخب نمائندے پارٹی قیادت کے مکمل وفادار ہوں مگر راتوں رات اپنی وفاداریاں بدلنے بیچنے اور خریدنے میں بھی آزاد ہوں۔ حسبِ مفاد بالائے آئین قوتوں کا بھی ساتھ دیں اور وقت بدلے تو پھر سے کتابِ دستور چوم  کے سر پے رکھ لیں۔

’قائدِ اعظم ایک ایسی وفاقی ریاست چاہتے تھے جس میں صوبائی خود مختاری کو بھرپور تحفظ حاصل ہو اور مرکز بھی مضبوط ہو۔‘ فوٹو اے ایف پی 

غالباً قائدِ اعظم ایسا سیاسی کلچر چاہتے تھے جس میں میرٹ پر قیادت کی جتنی گنجائش ہو اتنی ہی گنجائش موروثی قیادت کے لیے بھی ہو۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندر انتخابات کرانے کی بھی پابند ہوں اور اوپر سے نیچےتک نامزدگیوں کےکلچر کو بھی اپنائے رہیں۔ جماعتی فیصلے مشاورت سے بھی کریں مگر پارٹی لیڈر کے ہر فیصلے کو آنکھ بند کر کے بھی تسلیم کر لیں۔ ضرورت پڑنے پر اپنے کٹر نظریاتی مخالف سے بھی اتحاد کر لیں اور موقع کی نزاکت کے اعتبار سے اسی اتحادی کو غدار، ملک دشمن اور کرپٹ کہنے سے بھی نہ چوکیں۔ اصولی سیاست کا بھی دم بھرتی رہیں اور بے اصولی کو بھی بیک ڈور سے کھانا پہنچاتی رہیں۔
جہاں تک نظامِ انصاف کا معاملہ ہے تو قائدِ اعظم  کے خیالات کو اگر ان کے بعد آنے والے ہر حکمران کی عینک اور نیت کے پیرائے میں دیکھا جائے تو وہ خالص مغربی نظامِ عدل بھی چاہتے تھے مگر انہیں شرعی عدالتوں کے بارے میں بھی کوئی ذہنی تحفظ نہیں تھا۔ وہ خصوصی عدالتوں، فوجی عدالتوں، خصوصی ٹریبونلز اور جرگہ سسٹم  کو بھی نہ صرف مباح سمجھتے تھے بلکہ ان سب کے شانہ بشانہ وجود پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔

مسلم لیگ ن  کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ قائدِ اعظم  جیسا پاکستان صرف نواز شریف کی قیادت میں بن سکتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

تہتر برس جس طرح گذرے ان کی روشنی میں یہ فرض کرنے میں بھی اب کوئی حرج نہیں کہ قائدِ اعظم شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق  کے ہر صورت میں تحفظ  کے داعی تھے۔ مگر وہ ہنگامی حالات کے نفاذ کو عذر بنا کر یہ بنیادی حقوق سالہا سال معطل رکھنے کو بھی جائز سمجھتے تھے۔
وہ اس پر بھی یقین رکھتے تھے کہ ایک سنگین مجرم کے بھی آئینی و قانونی حقوق ہوتے ہیں مگر جبری گمشدگیوں کے فیشن اور سینکڑوں قیدیوں کو مروجہ عدالتی نظام سے ایک طویل عرصے تک دور کسی نامعلوم جگہ پر رکھنے اور پھر کسی فردِ جرم کے بغیر اچانک رہا کر دینے یا ہلاک کر دینے کو بھی جائز سمجھتے تھے۔
قائد اعظم شائد نوآبادیاتی تھانہ کلچر، ٹارچر، جھوٹی گواہی اور ایسے نظام کے کل پرزوں  کی عدالتی باز پرس نہ ہونے کے بھی شدید خلاف تھے مگر ناگزیر حالات میں اسے ایک مجبوری سمجھ کر برداشت کرنے کے بھی قائل تھے۔
قائدِ اعظم  پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے والی ایک باوقار معاشی قوت بھی دیکھنا چاہتے تھے مگر  آئی ایم ایف، برادر تیل ممالک اور غیر مسلم دوست ممالک سے ہر منصوبے کے لیے قرضے لینے اور اس قرض کو آمدنی سمجھنے اور اس کی واپسی کو اگلی نسلوں پر چھوڑنے کو بھی برا نہیں سمجھتے تھے۔

’قائدِ اعظم غالباً ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں مسلح افواج کی قیادت صرف جغرافیائی سرحدوں  کے تحفظ کی پابند ہو۔‘ فوٹو اے ایف پی

قائدِ اعظم  ایک آزادانہ و خود مختارانہ خارجہ پالیسی کے بھی مکمل حامی تھے اور وہ پاکستان کو اسلامی دنیا کا لیڈر  بھی دیکھنا چاہتے تھے مگر خارجہ تعلقات  کو ’مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘  کے اصول سے نتھی کرنے کو بھی برا نہیں سمجھتے تھے۔
ان معروضات کے بعد میری ہر موجودہ اور آئندہ منتخب یا غیر منتخب حکمران اور اس کے حواریوں سے دست بستہ التجا ہے کہ آپ کا جو جی چاہے اس ریاست کے ساتھ کریں مگر قائدِ اعظم کے تصورِ پاکستان کو بخش دیں۔ کم از کم اپنے دعووں اور کارکردگی کو ہر سالگرہ، برسی اور یومِ آزادی پر ان کے نام سے مت جوڑیں اور بعد از مرگ  ان کے سکون سے سونے کے حق کا ہی احترام کر لیں۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: