Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کو گیم چینجر قرار دیا۔ فوٹو: اے ایف پی
عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکی راکٹ حملے میں ہلاک ہونے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اگرچہ سیاسی معاملات سے دور رہتے تھے لیکن عراق اور شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کی کارروائیوں کی وجہ سے ایک عرصے سے خبروں میں تھے۔
جنرل سلیمانی کی شخصیت کے بارے میں اس وقت زیادہ تذکرہ ہونا شروع ہوا جب امریکہ اور اسرائیل نے ایران سے باہر پراکسی وارز یا درپردہ جنگی کاررائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے۔
عرب نیوز کے مطابق القدس فورس کے سربراہ کے طور پر جنرل سلیمانی نے کارروائیوں کو عراق، لبنان اور شام تک وسعت دی جس میں فورس کے اہلکاروں کو شامی صدر بشار الاسد کے خلاف ایک طویل جنگ میں ان کی حمایت کے لیے تعینات کیا گیا۔ 
اس کے علاوہ 2003 میں امریکہ نے جب وہاں برسراقتدار آمر اور ایران کے دیرینہ دشمن صدام حسین کو ہٹانے کے لیے حملہ کیا تو وہاں پر بھی القدس فورس کے اہلکار بھیجے گئے۔
جنرل سلیمانی کے اثر و رسوخ کے بارے میں اس وقت میڈیا پر رپورٹ کیا جانے لگا جب شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کے لیے لڑنے کے ساتھ انہوں نے عراق اور شام میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف کارروائیاں کرنے والی فورسز کو مشورے دینے شروع کیے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ جنرل سلیمانی نے اپنے زیر کمانڈ اہکاروں کو تربیت دی کہ امریکی حملے کے بعد وہاں موجود امریکی اہلکاروں کے خلاف حملے کیے جا سکتے ہیں جس میں بلخصوص سڑک کنارے بم نصب کرنا شامل تھا۔
جنرل سلیمانی زیادہ تر ایرانیوں  میں مقبول تھے اور انھیں ایک ایسے ہیرو کےطور پر جانا جاتا تھا جو بیرون ملک ایرانی دشمنوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

جنرل سلیمانی نے عراق اور شام میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف کارروائیاں کرنے والی فورسز کو مشورے بھی دیے۔ فوٹو: اے ایف پی

جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بارے میں ماضی میں متعدد بار اطلاعات سامنے آئیں تھیں جس میں 2006 میں ایران کے شمالی مغربی علاقے میں فوجی ہیلی کاپٹر کے حادثے کے بعد ان کا نام آیا اور اس کے بعد 2012 میں دمشق میں ہونے والے بم حملے کے بارے میں خبریں آئیں کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کے فوجی افسران کے ساتھ اس حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
اس کے علاوہ 2015 نومبر میں ایسی افواہیں بھی سامنے آئیں تھیں کہ وہ شامی شہر حلب میں شامی صدر کی فورسز کے ساتھ کارروائیوں کے دوران مارے گئے یا شدید زخمی ہو گئے۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ یہ عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا اور ستائیس دسمبر کو راکٹ حملے میں ایک امریکی کی ہلاکت کا جواب امریکی فوج دے گی۔

شیئر: