Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لِپ سِٹک نہیں، دماغ پر لگا زنگ اُتارو‘

سوشل میڈیا صارفین نے نوٹی فکیشن کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جامعہ آزاد جموں و کشمیر کے شعبہ تعلیم میں طالبات کے لپ سٹک کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا سرکلر سامنے آیا ہے۔
سرکلر کے مطابق لپ سٹک لگا کر آنے والی طالبات کو ہر بار 100 روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ سرکلر کے مطابق لپ سٹک استعمال کرنے والی طالبات کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری مسرت کاظمی نامی لیکچرر کو دیا گیا ہے۔
یہ سرکلر21 جنوری کو جاری کیا گیا تاہم جامعہ کی جانب سے اس نوٹی فیکیشن سے لاتعلقی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کی رجسٹرار عائشہ سہیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یونیورسٹی نے اس قسم کا کوئی سرکلر جاری نہیں کیا، یہ سرکلر یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم کی جانب سے جاری ہوا ہے۔‘
رجسٹرار عائشہ سہیل کے مطابق یونیورسٹی کے  کسی شعبے کے پاس کسی قسم کی پابندی عائد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ’سرکلر جب بھی جاری کیا جاتا ہے تو وہ رجسٹرار آفس سے ہی جاری ہوتا ہے کوئی بھی اس طرح کا سرکلر جاری نہیں کر سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’شعبہ تعلیم میں طالبات کی تعداد زیادہ ہے تو ڈیپارٹمنٹ نے اپنی حد تک اس طرح کا سرکلر جاری کیا ہے، جس پر شعبہ تعلیم سے پوچھ گچھ کی جائی گی کہ کیوں ایسی پابندی عائد کی گئی ہے۔‘
جامعہ آزاد جموں و کشمیر کے شعبہ تعلیم کی جانب سے یہ سرکلر سامنے آنے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی۔
 
سوشل میڈیا صارفین نے یونیورسٹی کے اس نوٹی فیکیشن کو مضحکہ خیز قرار دیا تو کچھ اس کی حمایت میں بھی بول اٹھے۔
صحافی غریدہ فاروقی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’لپ سٹک کا رنگ نہیں، دماغ پر لگا زنگ اتارو۔ ایسی مضحکہ خیز پابندی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔‘
 
خورشید احمد عباسی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’کم از کم اس طرح کی چھچھوری حرکتیں کرکے ادارے کا مذاق تو نہ بنائیں۔‘
خطیب ضیا نامی ٹوئٹر صارف نے لپ سٹک پر پابندی کی وجہ مہنگائی کو قرار دیتے ہوئے چٹکلہ چھوڑا کہ ’مس مسرت کے پاس لپ سٹک کے پیسے نہیں بچتے تھے۔‘
شبنم سحر نے ٹویٹ میں کہا کہ ’طالبات کالج جاتی ہیں یا ریمپ پر ماڈلنگ کے لیے؟
 
ایک اور صارف زیڈ اے روپاڑی نے لکھا کہ ’عجیب اقدام! لیکن میں  متفق ہوں، یونیورسٹیاں غیر معمولی فیشن کی جگہ نہیں، لڑکوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جس لڑکی نے لپ سٹک لگا رکھی ہے وہ بھی قابل احترام ہے۔‘
فہیم اسحاق نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’اس فیصلے سے یونیورسٹی انتظامیہ کی ذہنی پختگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، انتہاپسندانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے یہ اقدام۔‘

شیئر: