Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان گرے لسٹ میں رہنے کے لیے پُرامید

پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے ممبران سے سفارتی رابطے کرکے ان کی حمایت بھی حاصل کرنا ہوگی۔ فوٹو: اے ایف پی
کالے دھن اور دہشت گردی کی مالی امداد کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے چین میں ہونے والے حالیہ اجلاس میں ہونے والی کارروائی کے بعد پاکستانی حکام مطمئن ہیں کہ ملک کا نام اس سال فروری میں ادارے کی بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ ٹل گیا ہے تاہم اب بھی ملک کا نام گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات روشن نہیں ہیں۔
چین کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وفد کے متعدد ارکان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انڈیا کی طرف سے پاکستان کی بھرپور مخالفت کے باجود اجلاس میں اکثر رکن ممالک پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نظر آئے اور غالب امکان ہے کہ ایکشن پلان کے 27 نکات میں سے کم از کم 14 پر پاکستانی اقدامات کو ایف اے اٹی ایف تسلیم کرے گی۔
یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے اپنے اکتوبر 2019 کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ اگر فروری تک پاکستان نے دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے خلاف واضح اقدامات نہ کیے تو ملک کا نام بلیک لسٹ میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ تنظیم کا اجلاس فروری میں پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔

بیجنگ اجلاس میں کیا ہوا؟

تاہم حکام مطمئن ہیں کہ بیجنگ اجلاس کے بعد یہ خطرہ ٹل چکا ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وفد میں شامل فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل منصور حسن صدیقی نے بتایا کہ انہیں یقین ہے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کا کوئی امکان نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ ملک کا نام مزید کچھ عرصہ’گرے لسٹ‘ میں رہ سکتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ حتمی فیصلہ تو ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی)  پاکستان کے حوالے سے اپنی جمع کروائی گئی رپورٹ میں کرے گا تاہم پاکستان کے وفد کی بیجنگ میں کارکردگی پچھلے اجلاسوں کے مقابلے میں خاصی بہتر تھی۔

پاکستانی حکام مطمئن ہیں کہ ملک کا نام اس سال فروری میں ادارے کی بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ذرائع کے مطابق بیجنگ اجلاس سے قبل پاکستان کے وفد کے ڈیڑھ درجن حکام نے ماہرین کی زیرنگرانی ہفتوں تیاری کی تاکہ وہ پاکستانی اقدامات کے حوالے سے بین الاقوامی وفود کے سوالات کے جوابات دے سکیں۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ بیجنگ اجلاس میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کی روشنی میں مالیاتی اداروں کی اصلاحات، دہشت گردی کی مالی معاونت پر کی جانے والی قانونی کارروائی اور سزاؤں اور دیگر اقدامات پر اجلاس کو بریفنگ دی اور ایک ایک اقدام کے حوالے سے سوالات کے جواب میں وضاحت دی۔
وفد کے ایک رکن کے مطابق اجلاس کے دوران انڈیا کے نمائندوں نے بار بار پاکستانی ارکان سے غیر متعلقہ سوالات پوچھے جس سے اجلاس میں شریک مغربی ممالک کے نمائندوں نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ وفد کے رکن نے انڈین میڈیا کی طرف سے پاکستان کا نام گرے لسٹ سے بھی باہر ہونے کی خبروں کو ایک چال اور پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ انڈیا پہلے پاکستان کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹ کر بعد میں ملک کا نام گرے لسٹ میں ہی رہنے کو اپنی کامیابی قرار دے گا اور اپنی عوام کو گمراہ کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔


گذشتہ سال کے پاکستانی اقدامات

وفد کے رکن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے گذشتہ ایک سال کے دوران متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں جن کو جھٹلانا کسی کے لیے ممکن نہیں تاہم اجلاس کے ارکان نے حافظ سعید اور دیگر کالعدم رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی اور سزاؤں کے عمل کے حوالے سے مزید اقدامات کا تقاضا کیا جس پر پاکستانی وفد نے بتایا کہ ملکی عدالتیں اس حوالے سے کیسز کی سماعت کر رہی ہیں ۔ پاکستانی وفد نے بتایا کہ ملکی قوانین میں کالعدم تنظیموں کے حوالے سے ترامیم کے ذریعے یہ ممکن بنایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے کالعدم کیے گئے ادارے اور افراد پاکستان کے قوانین کے تحت بھی پابندیوں کا شکار ہوں۔ اس کے علاوہ بینکوں میں بھی اصلاحات اور نئے قوانین کے تحت اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کسی قسم کی مشکوک ٹرانزیکشن فورا پکڑی جا سکے اور دہشت گردی کی مالی معاونت کا راستہ روکا جا سکے۔

سفارتی رابطے اور کامیابیاں

ذرائع کے مطابق آئندہ چند دنوں میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے ممبران سے سفارتی رابطے کرکے ان کی حمایت بھی حاصل کرنا ہوگی۔ اسی سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کے دورہ ملائشیا کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ ملائشیا بھی اس تنظیم کا ممبر ہے جبکہ ترکی اور چین سے بھی پاکستان کو حمایت کی توقع ہے۔ اس بار چند مغربی ممالک کی طرف سے بھی پاکستان کے لیے نرم رویہ دیکھا گیا ہے۔

تنظیم کے 35 ارکان ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، چین اور انڈیا بھی شامل ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

یاد رہے کہ چند دن قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈیوس میں ہونے والی ملاقات میں پاکستانی وزیراعظم نے امریکی صدر کو ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر حمایت کے لیے راضی کر لیا ہے۔امریکی حمایت کے بعد پاکستان کے ایف اے ٹی ایف میں امکانات خاصے روشن ہو چکے ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لیے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کیے جائیں۔
اس تنظیم کے 35 ارکان ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، چین اور انڈیا بھی شامل ہیں۔ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے۔

شیئر: