Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا صدر کون؟ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں کا حلف

عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی پرانے سیاسی حریف ہیں (فوٹو: روئٹرز)
افغانستان میں سیاسی بحران اس وقت شدت اختیار کر گیا جب نومنتخب صدر اشرف عنی کی تقریب حلف برداری کے دوران ان کے سیاسی حریف اور سابق چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے بھی ایک متوازی تقریب میں اپنے آپ کو صدر قرار دے کر حلف اٹھا لیا۔
خبر رساں اداے اے ایف پی کے مطابق پیر کو کابل کے صدارتی محل میں ہونے والی تقریب حلف برداری میں نومنتخب صدر اشرف غنی نے حلف اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’میں اللہ تعالیٰ کے نام پر حلف اٹھاتا ہوں کہ میں مذہب اسلام کی پاسداری اور حفاظت کروں گا اور  آئین کی تکریم اور اس پر عملدرآمد کی نگرانی کروں گا۔
دوسری جانب ان تقریبات کے دوران افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دو دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ دونوں تقاریب میں سینکڑوں لوگ شریک تھے اور دھماکوں کی آوازیں سن کر کچھ لوگ تقاریب کو چھوڑ کر چلے گئے۔
ان دھماکوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔ تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کی جانب سے صدارتی محل کے قریب 10 راکٹ فائر کیے گئے تھے۔
دھماکوں کی آواز کے بعد جب سائرن کی گونج تقریب میں سنائی دی تو اشرف غنی نے کہا کہ ’میں نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی، صرف شرٹ پہنی ہے۔ اگر مجھے اپنے سر کی قربانی بھی دینا پڑی تو میں یہاں سے بھاگوں گا نہیں۔‘
اشرف غنی کی تقریب میں سینکڑوں لوگ بشمول سفارتکار، بیرون ملک سے آنے والے عمائدین اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔
دوسری جانب اشرف غنی کے حلف اٹھانے کے منٹوں کے بعد ہی عبداللہ عبداللہ نے بھی حلف برداری کی تقریب منعقد کی جس میں انہوں نے اپنے آپ کو نومنتخب صدر قرار دے حلف اٹھایا۔

حلف برداری کی تقریب میں متعدد سفارتکار بھی شریک تھے (فوٹو: اے پی)

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اقدام طالبان کے ساتھ امن معاہدے سے پہلے جنگ زدہ افغانستان کو شدید سیاسی بحران میں مبتلا کرے گا۔
گذشتہ سال ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں اشرف غنی کو فاتح قرار دیا گیا تھا۔ تاہم ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے ’تقریب حلف برداری‘  میں افغانستان کی آزادی، قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کا عزم کیا۔
اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی سے عام افغان شہری ملک کے مستقبل سے ناامید ہو رہے ہیں۔
احمد جاوید نامی ایک افغان شہری نے بتایا کہ ’یہ ناممکن ہے کہ ایک ملک میں بیک وقت دو صدر ہوں۔ میں دونوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس وقت اقتدار کے لیے لڑنے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں۔‘
ان کے مطابق ’حلف برداری کی الگ الگ تقاریب منعقد کرنے کے بجائے ان دونوں کو آپس میں بات کرنا چاہیے تھی اور اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔‘

امن معاہدے کے افغانستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے (فوٹو: اے اپی)

افغانستان کی تاریخ کے بدترین تشدد کے واقعات میں سے ایک میں گذشتہ جمعے کو داعش کے شدت پسندوں نے ایک سیاسی ریلی پر حملہ کرکے 32 لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
افغان آرمی اور عام شہریوں کے خلاف طالبان کے حملوں میں بھی شدت آئی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیخ اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ متوازی حلف برداری کی تقریبات سے ثابت ہوا کہ ‘غلاموں‘ کے لیے اپنے ذاتی مفادات کے علاوہ کچھ بھی اہم نہیں ہے۔

شیئر: