Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کے ہسپتالوں میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ مشکل کیوں؟

لاہور میں اب تک چھ افراد کو آئسولیشن وارڈز میں رکھا گیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان بھر میں ہنگامی صورت حال جاری ہے۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آخری سرکاری اطلاعات تک صرف ایک مریض سامنے آیا ہے جس کا علاج میو ہسپتال میں جاری ہے۔
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے تقریبا سبھی بڑے سرکاری ہسپتالوں میں علیحدہ سے کورونا آئسولیشن وارڈز بنا دیے گئے ہیں۔ میڈیا پر چلنے والی خبروں کی وجہ سے جو شخص بھی اپنے آپ میں ایسی علامات محسوس کرتا ہے جو کورونا سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہو سکتیں ہیں، اس کی خواہش ہے کہ ہسپتال میں اس کا ٹیسٹ کیا جائے۔
تمام ایسے مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ سرکاری ہسپتالوں میں نہیں کیے جا رہے بلکہ انہیں عمومی چیک اپ کے بعد یا تو گھر روانہ کر دیا جاتا ہے یا کورونا کے لیے مختص وارڈ میں عارضی طور پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ البتہ کورونا وارڈز میں داخل افراد کی تعداد ابھی بہت کم ہے۔
پنجاب کے محکمہ صحت کی جانب سے پیر کی سہ پہر جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق 122 ایسے افراد ہیں جن کے نمونے لیب ٹیسٹ کے لیے بھیجے گئے ہیں۔
لاہور میں ابھی تک چھ افراد کو دو بڑے ہسپتالوں میو اور سروسز میں آئسولیشن وارڈز میں رکھا گیا ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے تمام ہسپتالوں کو جاری ہدایات کے مطابق صرف ان افراد کو کورونا ٹیسٹ کے لیے ترجیح دی جا رہی ہے جنہوں نے حال ہی میں کسی بیرون ملک کا سفر کیا ہو۔
یہی وجہ ہے سرکاری ہسپتالوں میں پہنچنے والے مقامی افراد نوحہ کناں ہیں کہ ان کے ٹیسٹ نہیں لیے جا رہے۔
سروسز ہسپتال میں آئے ایک مریض محمد علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’مجھے تین دن سے بخار اور فلو ہے اور سانس میں دشواری بھی ہے میں ادھر آیا اور کورونا کے لیے مختص کاؤنٹر پر جا کر بتایا تو روٹین کے چیک اپ کے بعد مجھے گھر جانے کا کہہ دیا گیا۔
’کہا جا رہا ہے کہ ہر کسی کا ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا۔ پرائیویٹ لیبارٹریز نو ہزار اور آٹھ ہزار کا ٹیسٹ کر رہی ہیں جو کہ بہت مہنگا ہے۔‘

پنجاب کے محکمہ صحت کے سیکرٹری کے مطابق ان کے پاس دو ہزار ٹیسٹنگ کٹس موجود ہیں (فوٹو: اے پی)

سروسز ہسپتال کے کورونا پر فوکل پرسن ڈاکٹر احمد ندیم کے مطابق ایسا نہیں ہے جیسا لوگ سمجھ رہے ہیں۔ کسی کو ہلکا سا نزلہ زکام بھی ہے تو وہ اپنا ٹیسٹ کروانا چاہتا ہے۔ اور یہ صرف اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ لوگوں کو آگاہی کی ضرورت ہے۔
’ہمارے ماہر ڈاکٹر مکمل چیک اپ کے بعد ہی لوگوں کو گھر جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یہ کوئی طبی غفلت نہیں ہے بلکہ آپ اس کو مینیجمنٹ کہیں۔‘

’ہسپتال کورونا ٹیسٹ نہیں کر رہے‘

ڈاکٹر احمد ندیم کا کہنا ہے کہ ’ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہسپتالوں میں دیکھ بھال کے انتظامات کیے ہیں اور کورونا کے مصدقہ مریضوں کے لیے تیاری کی گئی ہے۔ ہسپتالوں میں ٹیسٹ نہیں کیے جا رہے نہ کیے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ بالکل نئی بیماری ہے اور ہسپتالوں کی لیبارٹریز کورونا ٹیسٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ پھر کورونا ٹیسٹ کیسے اور کہاں کیے جا رہے ہیں؟ ڈاکٹر احمد نے بتایا کہ اس کے لیے محکمہ صحت کی مرکزی لیبارٹری جو کہ پبلک ہیلتھ انسٹیٹیوٹ میں قائم ہے یہ ٹیسٹ وہاں کیے جا رہے ہیں۔ ’پہلے ہسپتالوں میں سکریننگ ہو رہی ہے اور ہسپتال اگر سمجھے کہ کسی فرد کا لیب ٹیسٹ ہونا چاہیے تو صرف اس کا ہی نمونہ اس لیب کو بھیجا جا رہا ہے۔‘

پنجاب کے محکمہ صحت کی جانب سے اب تک 122 افراد کے نمونے لیب ٹیسٹ کے لیے بھیجے گئے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے بتایا کہ اس لیب کو چین میں وبا آنے کے بعد ہی اپ گریڈ کر لیا گیا تھا۔
اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ پنجاب کے موجودہ وسائل میں کتنے افراد کے لیب ٹیسٹ کرنے کی سکت ہے، جب وزارت صحت کے سیکرٹری کیپٹن عثمان سے اردو نیوز نے رابطہ کیا تو ان کو کہنا تھا ’ہمارے پاس اس وقت دو ہزار کٹس موجود ہیں جبکہ اگلے ہفتے مزید بھی آرہی ہیں۔ ایک کٹ سے 50 افراد کے ٹیسٹ ہو سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں ایک لاکھ افراد کے ٹیسٹ کرنے کی سکت ہم رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت ٹیسٹ ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے اس وقت صرف حواس پر قابو رکھنے اور احتیاط کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ جہاں ہمارے ماہر ڈاکٹر محسوس کر رہے وہاں ٹیسٹ بھی ہو رہے ہیں۔ بس لوگ یہ ذہن میں رکھیں کہ اگر ان کو ہسپتالوں سے واپس بھیجا جا رہا ہے تو یہ بالکل نارمل صورت حال ہے۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: