Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں لاک ڈاون ہے یا نہیں ہے؟

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اتوار کو ملک میں 25 فیصد دیہاڑی دار طبقے کی معاشی مشکلات کے پیش نظر لاک ڈاؤن نہ کرنے کے اعلان کے ایک دن بعد ملک بھر میں کورونا وبا کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ اور کاروبار بند کر کے لوگوں کے غیرضروری باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کی تعیناتی کی منظوری دے دی گئی ہے۔
 تو کیا ملک میں لاک ڈاون ہے یا نہیں ہے؟
دنیا کے دیگر ممالک میں لاک ڈاؤن کیسے کیا جا رہا ہے اور لاک ڈاؤن اور کرفیو میں کیا فرق ہے۔ اردو نیوز نے ان سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

لاک ڈاؤن اور کرفیو میں فرق:

ماہرین کے مطابق لاک ڈاؤن ایک ہنگامی اقدام ہوتا ہے جس میں خطرے کی حالت میں لوگوں کو ایک محدود علاقے یا بلڈنگ کو چھوڑنے سے عارضی طور پر روکا جاتا ہے۔‘
کورونا وبا سے قبل لاک ڈاؤن کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی جس میں لوگوں کی نقل و حرکت ان کے تحفظ کے لیے فائرنگ یا دہشت گرد حملے کی صورت میں محدود کی جاتی تھی۔ 
لاک ڈاؤن میں پانچ یا زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہوتی ہے تاہم ضرورت کے لیے کوئی شخص باہر جا سکتا ہے۔ جبکہ کرفیو میں عام طور پر ہر کسی کے باہر نکلنے پر پابندی ہوتی ہے۔
لاک ڈاؤن میں گھر سے باہر جانے کے لیے عام طور پر اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی تاہم کرفیو میں اجازت نامے یا کرفیو پاس کے بغیر باہر نہیں جایا جا سکتا۔

پاکستان میں لاک ڈاؤن کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ اور کاروبار بند کر دیے گئے۔ فوٹو: اے ایف پی

لاک ڈاؤن میں ضروری سروسز جیسے پٹرول پمپس، کریانے کی دکانیں اور سبزی وغیرہ کی دکانوں کو کھولنے کی اجازت ہوتی ہے جبکہ کرفیو میں بہت کم استثنیٰ دیا جاتا ہے اور صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے یا چند صورتوں میں میڈیکل سروس کی ہی اجازت ہوتی ہے۔
لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر قانونی کاروائی کی جاتی ہے یا عموماً وارننگ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے، یا پاکستان میں سامنے آنے والے چند واقعات کی طرح ہلکی پھلکی سزا دے کر قانون توڑنے والوں کو معافی دی جاتی ہے تاہم کرفیو میں چند صورتوں میں دیکھتے ہی گولی مارنے تک کے احکامات دیے جاتے ہیں۔
برطانیہ نے تین ہفتوں کے لیے دکانیں اور دو سے زائد افراد کے مجمع پر پابندی لگاتے ہوئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔
ماہرین کی آرا کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح لاک ڈاؤن کی کیفیت ہے چاہے کوئی صوبہ یا علاقہ اسے لاک ڈاؤن کا نام دے یا نہ دے۔
آئیے دیکھتے ہیں دنیا کے دیگر ممالک میں کیسا لاک ڈاؤن نافذ ہے۔

برطانیہ نے تین ہفتوں کے لیے دکانیں اور دو سے زائد افراد کے مجمعے پر پابندی لگائی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

برطانیہ
تین ہفتوں تک لاک ڈاؤن سے انکار کے بعد پیر کو بالآخر برطانیہ کے وزیراعظم  بورس جانسن نے بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام 'غیر ضروری دکانیں، بند رہیں گی۔‘ انہوں نے ملک میں کورونا وائرس سے لڑنے کے اقدامات کا بتاتے ہوئے عوام کو گھروں پر رہنے کی ہدایت کی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق نئے اقدامات کے تحت برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ اشیائے ضرورت خریدنے، ورزش کرنے، طبی ضروریات اور دفتر آنے جانے کے لیے باہر نکلے کی اجازت ہے۔ حکومتی اعلان میں واضح کیا گیا ہے کہ کپڑوں، الیکٹرونکس کی دکانیں، لائبریریز، عبادت گاہیں بند رہیں گی۔ شادی اور پیدائش کی تقریبات پر بھی پابندی ہو گی لیکن تدفین پر نہیں۔

چین

دنیا میں اب تک کورونا وبا کے بعد سب سے موثر اور سخت لاک ڈاؤن چین میں نافذ کیا گیا جس کے تحت چین کے شہر ووہان اور صوبہ ہوبائی کے شہریوں کی نقل و حرکت کو سختی سے روکا گیا۔ وائرس کو دوسرے طریقوں سے کنٹرول کرنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد صوبے کو 23 جنوری کو لاک ڈاؤن کرکے کروڑوں افراد کی نقل و حرکت سے روک دیا گیا تھا۔ چین نے 24 مارچ کی رات بارہ بجے سے صوبہ ہوبائے پر نافذ کیا گیا لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دنیا میں اتنے بڑے پیمانے پر قرنطینہ کی شاید یہ واحد مثال تھی۔ لاک ڈاؤن جب شروع ہوا تو کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد سترہ تک پہنچ گئی تھی۔  اس اقدام سے صرف چھ ہفتوں میں چین کی کوششیں رنگ لے آئیں اور کورونا کے کیسز میں نمایاں کمی آگئی۔

اٹلی میں ریستوران صبح چھ سے شام چھ بجے تک کھلے رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ فوٹو: اےا یف پی

اٹلی

چین کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اٹلی جیسے جمہوری ملک نے بھی اپنے کئی شہروں کو لاک ڈاؤن کیا حتیٰ کہ 9 مارچ کو اٹلی کے وزیراعظم نے قومی قرنطینہ نافذ کر دیا جس کے تحت لوگوں کی نقل وحرکت کو صرف ہنگامی حالات اور کاموں کے علاوہ محدود کر دیا گیا۔ صرف ریستوران صبح چھ سے شام چھ بجے تک کھلے رکھنے کی اجازت دی گئی۔ جب لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تو اس وقت اٹلی میں کورونا کے کیسز 9000 ہو چکے تھے اور ہلاکتیں 463 تھیں۔

سپین

یورپ ہی کے ملک سپین نے 15 مارچ کو لاک ڈاؤن  کا اعلان اس وقت کیا جب کورونا کیسز کی تعداد 8000 کے قریب پہنچ گئی اور ہلاکتیں 288 ہو گئیں۔
لاک ڈاؤن کا فیصلہ کابینہ کے طویل اجلاس کے بعد وزیراعظم پیڈرو سانچز نے کیا اور تمام شہریوں کو کام اور ضروری سفر کے علاوہ گھر سے نکلنے سے روک دیا گیا۔
ملک میں ایمرجنسی ناٖفذ کر کے تمام غیر ضروری دکانیں، ریستوران، کیفے، فٹ بال گراؤنڈ اور سینما بند کر دیے گئے۔ اور صرف خوارک اور ادویات کے لیے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔

سپین نے 15 مارچ کو لاک ڈاؤن کیا جب کورونا کیسز کی تعداد 8 ہزار کے قریب پہنچ گئی تھی۔ فوٹو اے ایف پی۔

فرانس 

فرانس کی طرف سے ابتدائی طور پر ایسی کاوشوں سے بچنے کی کوشش کی گئی تاہم کورونا کیسز اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کو دیکھ کر فرانس نے بھی غیر ضروری کاروبار اور کیفے بند کر دیے۔ 16 مارچ کو جب ملک میں کورونا کیسز 6500 ہوگئے اور ہلاکتیں 150 تک پہنچیں تو لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا۔ فرانس میں لوگوں کو کھانے اور ادویات کے علاوہ گھر چھوڑنے پر 135 یورو جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

خلیجی ممالک 

خلیجی ممالک میں بھی اسی طرح کے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور لوگوں کے اجتماعات کو روک کر وائرس پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ کویت اور قطر نے اپنے اپنے ملک آنے جانے والی پروازیں معطل کر رکھی ہیں۔ کویت نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ گھروں میں ہی رہیں۔ متحدہ عرب امارات نے چار ہفتوں کے لیے مساجد اور عبادت گاہوں میں عبادت پر پابندی لگا دی ہے۔

انڈیا

انڈیا میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں نے 80 کے قریب اضلاع میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ انڈیا میں اب تک کورونا کے 415 کیسز  سامنے آچکے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد سات ہوچکی ہے۔ چند ریاستوں جیسا کہ مہاراشٹرا، کیرالہ، ہریانہ، یوپی، مغربی بنگال نے جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن کر رکھا ہے جبکہ ملک بھر میں لوگوں کو رضاکارانہ طور پر گھروں میں رہنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں