Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اٹلی میں کورونا کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر سعودی ڈاکٹر

ایمرجینسی میں خدمت کا موقع ملنے پر فخر محسوس کرتا ہوں(فوٹو عرب نیوز)
اٹلی میں کورونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں شامل 27 سالہ سعودی ڈاکٹر ناصر عبدالعلی نے مریضوں کے علاج کے لیے فرنٹ لائن پر کام کرنے پر فخر کا اظہار کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق 31 جنوری کو اٹلی کی حکومت نے کورونا وائرس کا مرض پھیلنے کے باعث ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا جب اٹلی کے وزیراعظم جیوسیپ کونٹے نے اسے کسی جنگ کے بعد کی طرح کا بدترین بحران قرار دیا۔

میں نے لمبارڈی میں اپنی خدمات پیش کرنے کا فیصلہ کیا(فوٹو عرب نیوز)

واضح رہے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں میں اٹلی بہت زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں اب تک ایک لاکھ 10ہزار 574 مریضوں میں سے 13915 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
ان میں ایسے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل ہے جو اس وبا کے پھوٹ پڑنے کے بعد بہادری سے اس کا مقابلہ کر رہے تھے۔
اٹلی میں موجود سعودی سفارتخانے کی جانب سے عرب نیوز کو ایک مضمون موصول ہوا ہے جس میں ایک 27 سالہ بہادرسعودی ڈاکٹر ناصر العبدالعلی کا ذکر ہے، جسے بہترین اٹلی زبان بولنے پر بھی عبور حاصل ہے۔

ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف وبا پھوٹنے کے بعد بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں(فوٹو گیٹی امیجز)

ڈاکٹر ناصر نے اپنے مختصر تعارف کے ساتھ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حالیہ دنوں کے تجربات کا ذکر کیا ہے۔
وہ اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر علاقے لمبارڈی میں واقع لودی کے ہسپتال میں خدمات پیش کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ میں سعودی حکومت کی جانب سے سکالرشپ پر پیویا یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 2011 میں یہاں پہنچا تھا۔ پیشہ ورانہ قابلیت کے ساتھ میڈیکل کی ڈگری 2019 میں حاصل کر لی تھی۔ رواں سال کے آغاز میں پوسٹ گریجویشن کی تعلیم لینے کا ارادہ تھا۔

اٹلی میں ایک لاکھ 10ہزار 574 مریضوں میں سے 13915 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔(فوٹو ٹوئٹر)

ڈاکٹر ناصرالعبدالعلی نے مزید بتایا کہ اس علاقے میں کورونا وائرس کے سبب مجھے حکام نے سعودی عرب واپس جانے کا موقع فراہم کیا تو میں نے اٹلی میں رہنے کو ترجیح دی۔
مجھےعلم تھا کہ میڈیکل کی یہ ڈگری ابھی مجھے سعودی عرب میں کام کرنے کا اختیار نہیں دلا سکتی اور میں اپنے ملک کو خدمات پیش نہیں کرسکتا لہذا میں نے یہاں رہ کر خدمات کرنے کا ارادہ کیا۔
اس دوران لمبارڈی کا علاقہ ریڈ زون قرار دے کر لاک ڈاون کر دیا گیا تھا کیونکہ یہاں پر کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور اس بحران میں صحت کے عملے کو مشکلات کا سامنا تھا۔

لمبارڈی کا علاقہ ریڈ زون قرار دے کر لاک ڈاون کر دیا گیا تھا(فوٹو گیٹی میجز)

ایمرجینسی کی وجہ سے اسپتال کی میری انٹرنشپ معطل تھی اور میں اس خاموش اور لاک ڈاون شہر میں احتیاط کے طور پر اپنی رہائش پرتھا۔ میں ایمبولینس کے چیختے ہوئے اور دل دہلا دینے والے سائرن سن کر افسردہ ہو رہا تھا۔
اس دوران گھر میں نہیں بیٹھ سکتا تھا،جانتا تھا کہ لوکل ہیلتھ سروسز کے ساتھ مل کراپنی حد تک مریضوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرسکتا ہوں۔
ہسپتالوں پر مریضوں کے غیر معمولی دباو کے باعث جب اٹلی میں ڈاکٹروں کی بھرتی کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا اور میڈیکل سکول کے فارغ التحصیل تمام افراد کی ضرورت کے مطابق موقع دیا جا رہا تھا اور بہت سے علاقوں میں ہیلتھ ورکرز کو خدمات کے لیے پیش کش کی جارہی تھی۔

ڈاکٹروں نے اپنی ٹیم میں خوش آمدید کہا ہم ایک خاندان کی طرح ہیں(فوٹو عرب نیوز)

ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ میں نے لمبارڈی میں اپنی خدمات پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ محکمہ صحت کی جانب سے انتہائی خوشی کا اظہار کیا گیا اور مجھے چارشہروں کریمونا، بریسیا، برگامو یا لودی میں سے کسی ایک شہرکے ہسپتال میں کام کرنے کا موقع دیا گیا۔
میں نے لودی کا انتخاب کیا حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس وقت یہ علاقہ کورونا وائرس کی سب سے زیادہ لپیٹ میں ہے۔
اس وقت میں بنیادی اور درمیانے درجے کے مریضوں کے لیے مختلف شعبوں میں کام کر رہا ہوں۔ میں دیگر ڈاکٹروں کے جذبے اور کام سے بہت متاثر ہوں۔ وہ مریضوں کو بچانے کے لیے اپنی زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ صلاحیتں بروے کار لا رہے ہیں۔

مریض کے رشتے داروں کو وائرس میں مبتلا ہونے سے بچانا بھی ترجیح ہے(فوٹو عرب نیوز)

میرے ساتھ موجود دیگر ڈاکٹروں نے اپنی ٹیم میں مجھے خوش آمدید کہا اور ہم ایک خاندان کی طرح ہمت اور استقامت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
وبائی مریضوں کے ساتھ نازک مرحلے میں خصوصی طور پر کام کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کو ہر دن موت سے پنجہ آزمائی کرنا پڑتی ہے۔
بعض اوقات مجھے مریضوں کے خاندان کو فون بھی کرنا پڑتا ہے اور انہیں بری خبر سنانی پڑتی ہے۔ یقینا یہ میرے مشن میں ایک انتہائی سخت اور دل گرفتہ عمل ہے۔

اتنے بڑے بحران میں  پیشہ ورانہ خدمات بہت بڑا چیلنج ہے(فوٹو سوشل میڈیا)

مریض کے اہل خانہ کبھی بھی آپ سے عجیب سوال کرلیتے ہیں، مریض کی شفایابی کی بھیک مانگتے ہیں۔ آخری مرتبہ ملاقات کا موقع مانگتے ہیں جو ہم نہیں دے سکتے۔
ہماری پہلی ترجیح مریض کی صحت اور ان کے رشتے داروں کو اس سے دور رکھتے ہوئے وائرس میں مبتلا ہونے سے بچانا ہے۔
ڈاکٹر ناصرعبدالعلی نے بتایا کہ اتنے بڑے بحران میں یہ پہلی پیشہ ورانہ خدمات میرے لیے بہت بڑا چیلنج ہے مگر میں اسے اپنے لیے فخر محسوس کرتا ہوں کہ اس ایمرجینسی میں مجھے خدمت کرنے کا موقع میسر آیا ہے اور میں بہترین ڈاکٹروں کی فرنٹ لائن ٹیم کا حصہ ہوں۔

شیئر: