Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ تین ہسپتالوں میں گیا مگر بیڈ ملنے تک بہت دیر ہوچکی تھی

لوئس اریلانو میں نمونیا کی تشخیص بھی ہوئی تھی (فوٹو: نیو یارک ٹائمز)
لوئس اریلانو کو ہسپتال میں داخل ہونے اور اپنا علاج کروانے کے لیے بہت جدوجہد کرنا پڑی۔ ان کا تعلق لاطینی امریکہ کے ملک ایکواڈور کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تھا اور وہ نیویارک کی انتظامی ڈویژن بوروغ میں رہائش پذیر تھے۔
طبیعت ناساز ہونے اور کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے پر لوئس اریلانو پہلے بروک لین میں اپنے قریبی ہسپتال گئے جہاں انہیں بتایا گیا کہ اگر ان کی صحت زیادہ خراب ہوتی ہے تو پھر وہ ہسپتال واپس آ جائیں۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق چند روز بعد طبیعت میں بگاڑ پیدا ہونے پر ان کی فیملی انہیں نیو جرسی کے ہسپتال لے گئی، جہاں انہیں 8 گھنٹے انتظار کرایا گیا اور اس کے بعد بتایا گیا کہ انہیں مزید 7 سے 9 گھنٹے انتظار کرنا ہوگا۔ ان کی فیملی انہیں وہاں چھوڑ کر چلی گئی۔
 65 سالہ اریلانو تب تک پوری طرح کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ چکے تھے اور ان کا جسم بھی بیماری سے ٹوٹ چکا تھا۔ اس وقت انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا۔
اریلانو پانچ روز تک ہسپتال میں رہنے کے بعد 5 اپریل کو حرکت قلب بند ہونے سے دم توڑ گئے۔ اس سے دو روز قبل ان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔
لوئس اریلانو کے بھائی بولیوار اریلانو کا کہنا ہے کہ 'اگر ہسپتال والے انہیں بروقت داخل کر لیتے تو انہیں پتا چل جاتا کہ وہ کتنے شدید بیمار ہیں۔'
لوئس اریلانو کو ہسپتال میں داخل کرنے اور ان کا علاج معالجہ کرنے کے معاملے پر نیو یارک اور نیو جرسی کے ڈاکٹرز اور نرسز تذبذب کا شکار تھے، یہ ہی وہ دو امریکی ریاستیں ہیں جو اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں اور یہاں طبی عملے کو محدود وسائل میں رہ کر ہی مریضوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔

فیملی کے مطابق لوئس اریلانو کو ہسپتال میں تاخیر سے داخل کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

بعض اوقات طبی عملے کو منٹوں میں یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ کس مریض کو ہسپتال میں داخل کرنے کی فوری ضرورت ہے اور کون گھر پر رہ کر بھی صحت یاب ہو سکتا ہے۔ کچھ مریضوں کے لیے یہ فیصلہ زندگی اور موت کے درمیان مختلف نوعیت کا ہے۔
لوئس اریلانو کی فیملی کے مطابق انہوں نے مارچ کے آخر میں بخار کی شکایت کرنا شروع کی تھی۔ 26 مارچ کو بروک لین کے ایک کلینک میں ان میں نمونیا کی تشخیص ہوئی۔ دو روز بعد انہیں سانس لینے میں تکلیف ہوئی تاہم انہیں ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا اور ایک ہفتے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔

نیویارک کے طبی عملے پر کورونا کے مریضوں کا بے پناہ دباؤ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

لوئس اریلانو کے اکلوتے بیٹے کارلوس اریلانو کا کہنا ہے کہ 'میرے والد مسلسل ایک ہفتے تک بیماری سے لڑتے اور ہسپتال میں علاج کے لیے کوشش کرتے رہے اور جب انہیں داخل کیا گیا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔'
نیو یارک سٹی ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر کیٹز نے اس بات کی تردید کی کہ ہسپتال نمونیا کے مریضوں کو واپس بھیج رہے ہیں۔ نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ 'یہ غیر ذمہ دارانہ اور غلط بات ہے۔'
ان کے بقول 'ہسپتالوں کا نیٹ ورک مریضوں کو بتا دیتا ہے کہ اگر ان کی علامات شدید نوعیت کی نہیں ہیں تو انہیں گھر پر آرام کرنا چاہیے۔ ہم نمونیا کے کسی مریض کو واپس نہیں بھیج رہے۔'

شیئر: