Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سپرے کرنے والے دروازے فراڈ ہیں اس لیے پابندی لگوائی‘

کورونا کی عالمی وبا ابھی ختم نہیں ہوئی، اس سے لڑنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں، ایسا بھی ہے کہ کچھ پہلے سے ڈھونڈے گئے طریقے غیر موثر ہو رہے ہیں۔
ڈس انفیکٹنگ ٹنلز یا جراثیم کش دروازوں کو ہی لیجیے جن پر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں پابندی لگا دی گئی ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے حال ہی میں جاری کیے گئے ایک حکم نامے کے مطابق ’کورونا کے ماہرین کے مشاورتی گروپ کی گذشتہ میٹنگ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ڈس انفیکٹنگ ٹنلز یا سپرے کرنے والے دروازوں سے متعلق کسی بھی قسم کی سائنسی شہادت نہیں ملی کہ وہ کورونا سے متعلق کسی بھی طرح سے کارآمد ہیں۔ لہٰذا ان دروازوں کو عوامی مقامات پر نصب نہ کیا جائے۔‘ 
یہ حکم نامہ محکمہ صحت کے ایک ادارے سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ آج کل کورونا سے بچاؤ کی مصنوعات کی مارکیٹ میں بھرمار ہے اور کئی کاروباری افراد نے کورونا کے دنوں میں بھی اپنے کاروبار بند نہیں ہونے دیے۔
کورونا کی اب تک کی سب سے مہنگی پروڈکٹ یہ سپرے والے دروازے مانے جا رہے تھے کیونکہ ایک دروازے کی مالیت ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے ہے۔
ڈس انفیکٹنگ ٹنلز قصور کس کا؟
محمد جمیل (فرضی نام) جو کہ لاہور کے علاقے فیصل ٹاؤن کے رہائشی ہیں اور جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے انہوں نے اپنی جمع پونجی سے سپرے والے دروازے بنا کر بیچنا شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 'وہ اب تک ایک درجن سے زائد ایسے دروازے بیچ چکے ہیں۔
’ہم نے جب دروازے بنانا شروع کیے تو پہلے پوری تحقیق کی اور ایسے آلات ڈھونڈ لیے جن میں سینسر بھی شامل ہیں جو کسی بھی شخص کے گزرنے پر خود کار طریقے سے سپرے کرتے ہیں۔ میرے پاس اس وقت پچاس دروازوں کا میٹریل پڑا ہوا ہے سمجھ نہیں آ رہی کہ اب ہم کیا کریں گے۔ وہ نوٹی فیکیشن میں نے بھی پڑھا ہے اس میں تو صاف صاف لکھا ہے کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ابھی ہم ایک آرڈر پانچ دروازوں کا تیار کر رہے ہیں دیکھیے کیا ہوتا ہے ابھی تک تو یہ منسوخ نہیں ہوا لیکن حکومت کو چاہیے تھا کہ جب کورونا سے متعلق گائیڈ لائنز تیار کی جا رہی تھیں تو اس وقت کورونا سے متعلق مصنوعات کی بھی گائیڈ لائنز جاری کرتے تاکہ لوگوں کا نقصان نہ ہوتا۔‘
 

ڈاکٹرز  کے مطابق کلورین سپرے الرجی کے مریضوں کے لیے خطرناک ہے (فوٹو:اے ایف پی)

ڈس انفیکٹنگ ٹنلز یا سپرے والے دروازے ایسے واک تھرو گیٹ ہیں جو کسی بھی عمارت کے داخلی حصے میں نصب کیے جاتے ہیں اور اس دروازے سے گزرتے وقت جراثیم کش محلول کا سپرے آپ پر ہوتا ہے، اور محلول مستقل طور پر ایک سٹوریج کی شکل میں ساتھ رکھنا ہوتا ہے ختم ہونے پر اس کی ری فلنگ کی جاتی ہے۔
جراثیم کش دروازوں پر پابندی کیوں لگی؟
اس بات کا کھوج لگانے کے لیے کہ آخر حکومت نے ان دروازوں پر پابندی کیوں لگائی ہے اردو نیوز نے پنجاب کے کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ (CEAG) کے رکن ڈاکٹر محمود شوکت سے بات کی۔ انہوں نے بتایا ’ہم کافی عرصے سے ان نام نہاد ڈس انفیکٹنگ ٹنلز پر غور و خوض کر رہے تھے۔ ہم نے دنیا بھر میں اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کو دیکھا۔ حیرت انگیز طور پر صرف ترکی ایک ایسا ملک ملا جہاں اس طرح کے جراثیم کش دروازے عوامی مقامات پر لگائے گئے۔ چین میں بھی نہ ہونے کے برابر ایسے دروازے دیکھنے میں آئے، باقی دنیا کے کسی بھی ملک میں ہم نے کورونا کی احتیاطی تدابیر کے طور پر ان ڈس انفیکٹنگ ٹنلز کو نہیں دیکھا۔'

ان دروازوں سے گزرتے وقت جراثیم کش محلول کا سپرے کیا جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر محمود شوکت کے مطابق 'یہ ٹنلز بالکل بے فائدہ ہیں اور کورونا سے بچاؤ میں رتی برابر بھی موثر نہیں ہے۔ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ کورونا ناک اور منہ کی رطوبتوں سے پھیلتا ہے۔ ایک شخص کو کورونا ہو چکا ہے بھلے علامات ظاہر نہیں ہوئیں تو ایسے شخص کو ذہن میں رکھ کر ہی آپ نے یہ جراثیم کش دروازہ بنایا ہے نا کہ وہ اس میں سے گزرے کا اور جراثیم سے پاک ہو جائے گا۔'
'ذرا اندازہ لگائیں کہ کورونا وائرس تو اس کے اندر ہے اس کی ناک اور گلے میں ہے ،یہ سپرے اس تک کیسے پہنچے گا؟‘
انہوں نے بتایا کہ 'پنجاب کی کورونا ماہرین کی ٹیم یہ سمجھتی ہے کہ ایک طرح سے یہ دروازے لوگوں کے درمیان ایک خیالی حفاظتی احساس پیدا کر دیتے ہیں جوکہ خطرناک رجحان ہے۔ جیسا کہ ایک شخص جو اس دروازے سے گزر کر آیا ہے وہ تو یہی خیال کرے گا کہ وہ تو جراثیم سے پاک ہو چکا ہے اور وہ دیگر ضروری احتیاطی تدابیر جو کہ واقعی موثر ہیں ان کی طرف توجہ نہیں دے گا جیسا کہ ماسک، ہینڈ سینی ٹائزرز اور ہاتھوں کا دھونا وغیرہ ہے۔'
’ہم نے اس لیے فیصلہ کیا ہے کہ یہ دروازے ایک فراڈ سے زیادہ کچھ نہیں جبکہ جتنی اس کی لاگت ہے اس سے اور بہت سے کام ہو سکتے ہیں جو واقعی وائرس کو لوگوں سے دور کر سکتے ہیں۔ اگر یہ طریقہ اتنا ہی مفید ہوتا تو دنیا اسے استعمال کر رہی ہوتی۔ ترکی نے جو کیا ہے اگر آپ ان کی ٹنلز دیکھیں تو وہ واقعی میں سرنگیں ہیں، کوئی بیس سیکنڈ تک آپ کو اس کے اندر سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ ویسے بھی سپرے نہیں بلکہ فوگ ہے۔ ادھر ہمارے ہاں تو پانی میں کلورین ڈال کر سپرے کیا جا رہا ہے جو کہ ایسے افراد کے لیے ویسے ہی خطرناک ہے جو الرجی کے مریض ہیں ان کو تو سانس کا سنجیدہ مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں