Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان 2020 سُرمئی بال قبول کرنے کا موقع

مشرق وسطیٰ کی خواتین زیادہ تر بالوں کو ڈائی کرانا پسند کرتی ہیں
رواں برس جنوری میں ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیقی ٹیم نے اس دیرینہ خیال کی تصدیق کر دی ہے کہ ذہنی تناؤ بالوں کے سرمئی ہونے کی وجہ ہے۔
عرب نیوز کے مطابق 'لاک ڈاؤن کی وجہ سے سلونز بند ہیں اور کورونا وائرس کی وجہ سے تناؤ کی بھی کمی نہیں ہے جس وجہ سے بے شمار لوگوں کے بالوں کا رنگ سرمئی ہوتا جا رہا ہے۔'
اس کو مشرق وسطیٰ کی خواتین کے لیے بری خبر کے طور پر لیا جا رہا ہے جو روایتی طور پر خود کو صاف ستھرا رکھنے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔
یہ خواتین فیشن کے طور پر رنگ کیے ہوئے بال پسند کرتی ہیں اور کئی تو ایسی ہیں جن کو سلون کے باقاعدگی سے دورے بہت یاد آ رہے ہیں۔

 

ثقافتی طور پر عرب خواتین سرمئی بالوں کو زیادہ پسند نہیں کرتیں، ان پر 20 برس کی عمر سے ہی بالوں کو رنگ کرنے کا دباؤ بڑھ جاتا ہے کیونکہ سرمئی رنگ عمر میں اضافے کی ایک ناپسندیدہ علامت سمجھی جاتی ہے۔
 دبئی میں مقیم فیشن بلاگر زہرا خلیل نے 26 برس کی عمر سے اپنے بالوں کو سرمئی رنگ سے ڈائی کرنا شروع کیا۔ عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ 'موجودہ صورت حال میں سلون جانا ان کے لیے بہت مشکل صورت حال بن چکی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس چیز نے مجھے اس بات کا احساس دلایا ہے کہ 'میرے سرمئی بال میری سوچ سے بھی زیادہ ہیں۔'
'مجھے یقین ہے کہ اس وقت دنیا میں تناؤ نے اس کو بدتر بنا دیا ہے لیکن میں ایسا سوچنا چاہوں گی کہ اس سے میں زیادہ عقل مند نظر آتی ہوں۔'
 زہرا خلیل کا کہنا ہے کہ 'میں نے ابتدا میں سوچا تھا کہ اگر میں اپنے بالوں کو قدرتی رنگ میں رہنے اور بڑھنے دیتی ہوں تو یہ میری شخصیت کے لیے بہت عمدہ ہوگا، لیکن بدقسمتی سے بال بڑھنے کی پیچیدگی زیادہ دلکش نہیں ہے، لہٰذا جب بھی مجھے موقعہ ملا میں اپنے بالوں کو دوبارہ ڈائی کروا لوں گی۔'

کیرولین کو سرمئی بالوں کی وجہ سے کئی فیشن کیمپینز میں نمایاں جگہ ملی (فوٹو: ٹوئٹر)

  دوسری جانب مغرب میں سرمئی بالوں کو عقل مندی اور خوب صورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ وہاں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نوجوان نسل بھی اپنے بالوں کو سرمئی رنگ میں رنگ رہی ہے۔
اگست 2019 میں برطانیہ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ سرمئی 2020 میں بالوں کا رنگ ہوگا۔
دبئی میں مقیم 'گرے ایمبیسیڈر' 55 سالہ کیرولین لیبوشر اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ 'بالوں کے سرمئی ہونے سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔'
عمر بڑھنے اور بالوں کے سرمئی ہونے کے حوالے سے ان کے بااعتماد رویے نے انہیں کئی بیوٹی اور فیشن کیمپینز میں نمایاں جگہ دلائی ہے۔
لیکن ہم سرمئی رنگ کے بالوں پر خوشی منانے کے لیے 50 برس کے ہونے کا انتظار کیوں کریں؟

مغرب میں نوجوان نسل بھی سرمئی بالوں کو پسند کر رہی ہے (فوٹو: پیک پِکس)

ماضی میں مشرق وسطیٰ کی خواتین اس سوچ سے خوف زدہ ہو جاتی تھیں کہ وہ رمضان میں اپنے بالوں کو سرمئی ہونے دیں۔ اس وقت گلیمر کو فوقیت حاصل تھی۔
اس سال رمضان اور سماجی فاصلہ دونوں نے ہمیں یہ موقعہ دیا ہے کہ ہم روحانی اور ذہنی طور پر اس بات کا جائزہ لیں کہ ساری مذہبی تاریخ میں کیوں سرمئی رنگ کے بالوں کو ایک مثبت علامت کے طور پر جانا گیا ہے۔   
ان دنوں سعودی عرب میں سلونز بند ہیں تاہم متحدہ عرب امارات میں سماجی فاصلے کے اصول پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی شرط پر سلونز کا کھولا جا رہا ہے۔
یو اے ای میں سلونز سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک وقت میں کم افراد کو ڈیل کریں اور یہ کہ دستانے اور ماسکس کا استعمال بھی یقینی بنائیں۔

شیئر: