بشار الاسد دور کے خوف کی علامت سابق فوجی مراکز میں ٹی وی ڈراموں کی شوٹنگز
بشار الاسد دور کے خوف کی علامت سابق فوجی مراکز میں ٹی وی ڈراموں کی شوٹنگز
بدھ 17 دسمبر 2025 17:25
مزّہ ایئر بیس پر فلمایا جانے والا منظر بشار الاسد کے ایک قریبی شخص کے فرار کو دکھاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
دمشق کے ایک ایسے فضائی اڈے پر، جہاں کبھی بشار الاسد کے دور میں عام لوگوں کا داخلہ ممنوع تھا، آج ایک ٹی وی ڈرامے کی شوٹنگ جاری ہے۔ یہ سیریز معزول صدر کے اقتدار کے آخری مہینوں کی کہانی ایک شامی خاندان کی نظر سے بیان کرتی ہے۔
ڈرامے کے ہدایت کار ہدایت کار محمد عبدالعزیز نے مزّہ ایئر بیس سے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یقین کرنا مشکل ہے کہ ہم یہاں شوٹنگ کر رہے ہیں۔‘ یہ وہی مقام ہے جو کبھی بشار الاسد کی فضائی انٹیلی جنس کے زیرِانتظام ایک بدنام زمانہ حراستی مرکز تھی، جہاں بے پناہ ظلم و تشدد کیا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دارالحکومت کے جنوب مغربی مضافات میں واقع یہ مقام ’کبھی فوجی طاقت کی علامت تھا، اور آج ہم اسی طاقت کے زوال پر ایک ڈراما بنا رہے ہیں۔‘
اسلام پسند گروہوں کی قیادت میں ہونے والی کارروائی کے بعد، جب دمشق کا محاصرہ مکمل ہوا، تو بشارالاسد بغیر کسی مزاحمت کے گذشتہ برس آٹھ دسمبر کو ملک چھوڑ کر روس فرار ہو گئے تھے۔ یہ سب تقریباً 14 سالہ خانہ جنگی اور نصف صدی پر محیط الاسد خاندان کی حکمرانی کے بعد ہوا۔
مزّہ ایئر بیس پر فلمایا جانے والا منظر بشار الاسد کے ایک قریبی شخص کے فرار کو دکھاتا ہے۔ یہ منظر ڈراما سیریز ’بادشاہ کا خاندان‘ کا حصہ ہو گا، جس کی شوٹنگ اُن انتہائی سکیورٹی والے مقامات پر کی جا رہی ہے جن سے عام شامی شہری کبھی خوفزدہ رہتے تھے۔
یہ سیریز فروری میں رمضان المبارک کے دوران نشر کی جائے گی، جو عرب دنیا میں پرائم ٹائم مانا جاتا ہے، جہاں چینلز اور پروڈکشن ہاؤسز ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد درجنوں اداکار، ہدایت کار اور شوبز سے وابستہ شخصیات، جو پہلے ان کے مخالف تھے، واپس شام لوٹ آئے ہیں۔ اس سے مقامی انڈسٹری کو بڑا سہارا ملا ہے، جبکہ کئی دیگر سیریز کی شوٹنگ کے لیے بھی سابق فوجی اور سکیورٹی مراکز کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔
’جو پہلے ناممکن تھا‘
عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک عجیب احساس ہے… جن جگہوں سے کبھی شام پر حکومت کی جاتی تھی، وہ اب تخلیقی مراکز میں بدل چکی ہیں۔‘
دمشق کے ایک اور حصے میں ان کی ٹیم سابق فوجی انٹیلی جنس کے دفتر فلسطین برانچ میں کام کر رہی ہے، جہاں کبھی قیدیوں سے اس قدر سفاک تفتیش کی جاتی تھی کہ کئی زندہ واپس نہ آ سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’فلسطین برانچ سکیورٹی نظام کا ایک اہم ستون تھا۔ صرف اس کا نام لینا ہی خوف پیدا کر دیتا تھا۔‘ یہ جگہ تشدد اور زیادتی کے لیے بدنام تھی۔
عمارت کے باہر جلی ہوئی گاڑیوں، دھماکوں اور سپیشل افیکٹس کے ساتھ، ٹیم ایک ایسا منظر دوبارہ تخلیق کر رہی تھی جس میں ’سکیورٹی نظام کے منہدم ہونے پر قیدیوں کی رہائی‘ دکھائی گئی ہے۔
شامی ڈائریکٹر محمد عبدالعزیز دمشق میں اپنے دفتر میں تصویر بنوا رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ برس بشار الاسد کے زوال کے بعد جیلوں کے دروازے کھل گئے تھے، جس کے نتیجے میں ہزاروں قیدی رہا ہوئے۔ اپنے لاپتہ عزیزوں کی تلاش میں، جن میں سے ہزاروں آج بھی لاپتہ ہیں، بے شمار شامی شہری ان جیلوں کی طرف دوڑ پڑے۔
بشار الاسد کی پُرتعیش اور سخت سکیورٹی والی رہائش گاہ، جس پر ان کے روس فرار ہونے کے بعد دھاوا بولا گیا اور لوٹ مار ہوئی، بھی اس سیریز کا حصہ ہے۔
محمد عبدالعزیز کے مطابق انہوں نے دمشق کے پوش علاقے مالکی میں واقع اس رہائش گاہ کے سامنے 150 سے زائد افراد پر مشتمل ایک لڑائی کا منظر فلمایا، جس میں فائرنگ بھی شامل تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ سب پہلے کبھی ممکن نہیں تھا۔‘
’خوف‘
سیریز کے سکرپٹ رائٹر 35 سالہ مان ساكبانی نے اس بات پر محتاط ردعمل دیا کہ بشار الاسد دور کی سخت سنسرشپ اب ختم ہو چکی ہے۔
اگرچہ نئی حکومت کی وزارتِ اطلاعات اب بھی سکرپٹس کا جائزہ لیتی ہے، لیکن ’بادشاہ کا خاندان‘ پر سنسر کی تجاویز نہایت معمولی تھیں۔ وہ دمشق کے ایک روایتی گھر میں ٹیم کے ساتھ مناظر کی ترتیب پر گفتگو کر رہے تھے۔
سکبانی کا کہنا تھا کہ انہیں یقین نہیں کہ یہ آزادی کب تک برقرار رہے گی، اور وہ رمضان میں نشر ہونے والی سیریز پر عوامی ردعمل کے منتظر ہیں۔
اسی دوران بشار الاسد دور سے متاثر کئی اور سیریز بھی ریلیز کے لیے تیار ہیں، جن میں ’دشمن شامی‘ بھی شامل ہے، جو سکیورٹی اداروں کی نگرانی میں زندگی گزارنے والے شہریوں کی کہانی بیان کرتی ہے۔
سیریز کے سکرپٹ رائٹر مان ساكبانی نے اس بات پر محتاط ردعمل دیا کہ بشار الاسد دور کی سخت سنسرشپ اب ختم ہو چکی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایک اور ڈراما ’کنویں تک جانا‘، جس کی ہدایت کاری محمد لطفی نے کی ہے اور جس میں کئی نامور شامی اداکار شامل ہیں، سنہ 2008 میں بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل میں ہونے والے خونی فسادات پر مبنی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس جیل کو ’انسانی ذبح خانہ‘ قرار دیا تھا۔
لطفی نے کہا کہ ’یہ ڈراما دو برس سے بھی پہلے لکھا گیا تھا، اور ہم اسے بشار الاسد کے زوال سے پہلے ہی فلمانا چاہتے تھے۔‘
تاہم کئی اداکار سابق حکومت کے ردعمل سے خوفزدہ تھے، اور شام میں فلم بندی ناممکن ہونے کے باعث کوئی مناسب مقام بھی دستیاب نہ تھا۔
اب وہ براہِ راست اسی جیل میں شوٹنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’نئی حکومت نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا اور صیدنایا جیل کے اندر فلم بندی کے لیے مکمل سہولیات اور لاجسٹک تعاون فراہم کی ہیں۔‘