Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عید: ’نئے کپڑے پہن کر جانا کہاں ہے؟‘

پاکستان میں وبائی صورتحال کے پیش نظر بڑے تجارتی مراکز بند رکھے گئے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
عام دنوں میں بہت سے لوگ رمضان سے قبل عید شاپنگ مکمل کر لیتے تھے جب کہ کچھ یہ کام دوران رمضان اور بعض عید کی شاپنگ کے لیے چاند رات تک انتظار کرتے تھے۔ ہر ایک کے پاس خریداری کے موقع کے انتخاب کی قائل کر لینے والی دلیلیں موجود ہوتی تھیں۔
اس برس کورونا وائرس اور پھر لاک ڈاؤن کے دوران رمضان شروع ہوا تو چوری چھپے کام نمٹا لینے والوں کے علاوہ باقی افراد کی نہ پہلے خریداری ہو سکی نہ دوران رمضان، البتہ لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان ہوا تو گیارہ مئی سے پاکستان کے بڑے شہروں کی مارکیٹوں میں خاصا رش دیکھنے کو مل رہا ہے۔
مختلف تجارتی مراکز میں دکانوں بالخصوص کپڑوں اور جوتوں کی دکانوں کے باہر غیرمعمولی رش اور اس دوران احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیے جانے کے مناظر سوشل میڈیا پر سامنے آئے تو اندازہ ہوا کہ عید شاپنگ کا سیزن تاخیر سے سہی شروع ہو چکا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے عید سے قبل بننے والی اس صورتحال پر گفتگو شروع ہوئی تو ایک ٹرینڈ کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کا حصہ بننے والے صارفین نے کہیں عید شاپنگ سے متعلق اپنے منصوبوں کا ذکر کیا تو کسی کو بے تحاشا رش پر تشویش ہوئی، کوئی کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے تجویز کردہ احتیاطی تدابیر نظرانداز ہونے پر پریشان رہا تو کسی نے متبادل آئیڈیاز کے ذریعے صورتحال سنبھالنے کی سعی کی۔
عاصمہ علی زین نے بازاروں میں رش کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’کوئی پوچھے ان خواتین سے کہ انہوں نے نئے کپڑے پہن کے جانا کہاں عید پر؟‘
 

بینا خان بھی عید شاپنگ کے لیے خود کو خطرے میں ڈالنے کے خیال سے متفق نہ ہوئیں۔ اپنی ٹویٹ میں انہوں نے پوچھا ’عید کے لیے خریداری کتنی ضروری ہے؟ کیا یہ رقم کہیں اور استعمال ہو سکتی ہے یا نیا لباس بہت ضروری ہے؟‘ انہیں توجہ دلائی گئی کہ یہ سوال خریداری کے لیے دکانوں کے باہر موجود خواتین سے پوچھیں جس پر بینا خان کا کہنا تھا ’وہ بہت مصروف ہیں، ہمیں اس پر گفتگو کرنی چاہئیے۔‘
 

ڈاکٹر عمارہ نامی صارف عید شاپنگ کی گفتگو کا حصہ بنیں تو انہوں نے اپنے سکون میں ہونے کا سبب دوسروں سے بھی شیئر کیا۔
 

کراچی میں لباس کی دکانوں کے باہر غیرمعمولی رش دکھاتی تصاویر پر تبصرہ کرتے ہوئے ثوبیہ قریشی نے احتیاطی تدابیر اور خریداری سے متعلق مسئلے کی نشاندہی کی اور لکھا ’اگر یہ سبھی چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنا چاہیں تو شاید بحیرہ عرب تک پہنچ جائیں۔‘
 

عید کی خریداری کے لیے رش بھرے میدان میں اترنے والے کچھ صارف ایسے بھی تھے جو انتخاب کے معاملے پر دوسروں کی مدد کے خواہاں دکھائی دیے۔
 

عید شاپنگ اور اس کے متبادل کا معاملہ پاکستان ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی گفتگو کا حصہ رہا۔ جعفر نامی ایک صارف نے اپنی تجویز میں عید کی خریداری کے لیے استعمال ہونے والی رقم عطیہ کر کے دوسروں کو بھوک سے بچانے کا خیال پیش کیا۔ ساتھ ہی توقع ظاہر کی کہ ایک چھوٹا سا قدم بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
 

سید جیلانی میاں نے لکھا ’آزادی اچھی چیز ہے لیکن کبوتر کو آزاد کرنے کے لیے دروازہ اگر بلی کھولے تو سمجھداری پنچرے میں رہنے میں ہی ہے۔ سمجھے۔‘
 

ماہم محمد بازاروں میں رش پر تشویش کا شکار ہوئیں تو پوچھا کہ ’اللہ نہ کرے لیکن کوئی بیمارے ہونے کے لیے اتنی شاپنگ بھی کرتا ہے کیا؟’
 

بیبا نامی ہینڈل نے معاملے کے معاشی پہلو کا ذکر کیا تو بازاروں میں دکھائی دینے والے رش کا حوالہ دے کر لکھا ’بڑی غربت ہے بھائی ملک میں بڑی غربت ہے، کھانے کو روٹی نہیں لیکن عید پہ سوٹ نیا لینا ہے‘۔
 

خریداروں کے ہجوم اور ممکنہ اثرات و خدشات کا ذکر ہوا تو اظہار مدعا کے لیے محاورے بھی استعمال ہوئے البتہ ایسا کرنے والے پہلے سے رائج الفاظ کو بدل کر نیا رنگ دینے کے خواہش مند رہے۔
 

سیدہ ماہینو شاہ نے بازار جائے بغیر مقصد حاصل کرنے کے لیے موجود متبادل کی نشاندہی کی تو سوال اٹھایا ’برانڈڈ کپڑے خریدنے والی پڑھی لکھی عوام یہ برانڈز آن لائن شاپنگ کی سہولت اور ہوم ڈیلیوری نہیں دے رہے آج کل؟‘ پھر خود ہی جواب دیا ’وہ ایسا کر رہے ہیں‘۔
 

اطہر بازار میں خریداروں کی رش کی ایک ویڈیو کے ساتھ سامنے آئے تو انہوں نے لکھا ’مزید ثبوت کہ ہم انفیکشن کے معاملے میں لاکھوں (مریضوں) کا ملک بننے کو تیار ہیں۔‘
 

عید کے لیے خریداری سے متعلق یادیں اور ان کے پس پردہ موجود خیالات بھی ٹائم لائنز پر نمایاں رہے۔
 

عید کی خریداری کی اہمیت کے قائل کہیں یا سمجھانے کے باوجود نہ سمجھنے کی مجبوری، کچھ صارف خریداری نہ کرنے اور متبادل اپنانے کی بحث کا حصہ بننے کے بجائے احتیاط اپنانے کی تلقین کرتے دکھائی دیے۔
 

پاکستان سمیت بیشتر اسلامی ملکوں میں عیدالفطر کی تیاریوں کے طور پر نئے لباس وغیرہ کی خریداری ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔ اس موقع پر اربوں روپے کی معاشی سرگرمی ہوتی ہے۔ گزشتہ برس مہنگائی کی وجہ سے عید کی خریداری میں کمی کا شکوہ کرتے ہوئے آل کراچی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عتیق میر کا کہنا تھا کہ عید سیزن میں صرف 35 ارب روپے کا کاروبار ہوا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: